تعمیراتی کام ٹھپ پڑنے کے سبب ۲۰۰؍سے۳۰۰؍مزدور دیگلور ناکہ پر کھڑے رہتے ہیں، مگر نہ کوئی مالک آتا ہے، نہ کوئی کام ملتا ہے۔
EPAPER
Updated: September 29, 2025, 2:55 PM IST | ZA Khan | Nanded
تعمیراتی کام ٹھپ پڑنے کے سبب ۲۰۰؍سے۳۰۰؍مزدور دیگلور ناکہ پر کھڑے رہتے ہیں، مگر نہ کوئی مالک آتا ہے، نہ کوئی کام ملتا ہے۔
دیگلورناکہ ناندیڑ شہر کا وہ علاقہ ہے جہاں صبح ہوتے ہی ۳۰۰؍ سے ۴۰۰؍مزدور اپنے چہروں پر امید کی روشنی اور ہاتھوں میں ہنر کی طاقت لئے جمع ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی راج مستری ہوتا ہے، تو کوئی مزدوری پر اینٹ پتھر ڈھونے والا، یا پھر کوئی رنگ و روغن کرنے والا۔ سب ایک ہی آس میں یہاں آتے ہیں کہ آج کوئی ٹھیکیدار، کوئی صاحب یا کوئی انجینئر انہیں کام پر بلا لے گا، اور شام کو وہ اپنے بچوں کے ہاتھوں میں دو وقت کی روٹی رکھ سکیں گے۔مگر موسلادھار بارشوں کا سلسلہ ان کی امیدیں ہی بہا لے گیا ہے۔
پچھلے ایک ہفتے سے ناندیڑ میں مسلسل بارش جاری ہے۔ جس کی وجہ سے تعمیراتی کام ٹھپ پڑ گئے ہیں۔ نوتعمیر شدہ عمارتوں کی بنیادیں کھدنے سے پہلے ہی پانی سے بھر گئیں، پلستر کی منتظر دیواریں بارش کے بوجھ سے بھیگ گئی ہیں۔ اور مزدور؟ وہ بے روزگار ہو گئے ہیں ۔یہی نہیں اب حال یہ ہے کہ کئی مزدوروں کے گھروں میں بارش کا پانی داخل ہو چکا ہے۔ کچھ کے آنگن دلدل بن گئے ہیں، کچھ کے کمروں میں برتن تیرنے لگے ہیں۔ ایک طرف چھت ٹپک رہی ہے، دوسری طرف چولہا بجھ چکا ہے۔ روزگار نہیں، کھانے کو اناج نہیں، اور مکانوں میں سیلابی پانی کا ڈیرہ ہے۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے یہ وہ مزدور ہیں جو کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ یہ اپنا پیٹ کاٹ کر بھی بچوں کے پیٹ بھرتے ہیں۔ مگر آج حالات نے انہیں مجبور کر دیا ہے۔ دن بھر دیگلور ناکہ پر کھڑے رہتے ہیں، مگر نہ کوئی مالک آتا ہے، نہ کوئی کام ملتا ہے۔ شام ڈھلے جب گھر لوٹتے ہیں تو بچوں کی آنکھوں میں ایک ہی سوال ہوتا ہے:’’ابو! کھانے کو کیا ہے؟‘‘مگر ابو کے پاس جواب نہیں ہوتا… بس خاموشی ہوتی ہے، آنکھوں میں نمی ہوتی ہے اور دل میں بے بسی کا ایک زخم۔حکومت اور انتظامیہ کبھی کبھی راشن کٹ بانٹتی ہے، مگر ہر کسی تک وہ مدد نہیں پہنچ پاتی۔ اور یہ مزدور؟ یہ تو وہ لوگ ہیں جو ’فلڈ زون‘ میں رہتے ہیں، جن کے گھروں میں پانی بھر چکا ہے۔ آج یہ صرف مزدور نہیں، بلکہ ’’مدد کے حقدار‘‘ بن گئے ہیں۔ہر ایک مزدور کے پیچھے ایک گھر ہے۔ چار سے پانچ افراد کا کنبہ، جن کی دو وقت کی روٹی اب سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ جو تنظیمیں خدمتِ خلق میں آگے بڑھ کر کام کر رہی ہیں، کیا ان مزدوروں کی طرف بھی کوئی دیکھے گا؟ کیا کوئی ان کے دروازے تک جائے گا؟ کیا کوئی ان کے بچوں کے ہاتھ میں کھانے کی پلیٹ رکھے گا؟یہ کہانی دیگلور ناکہ کے مزدوروں کی ہے…وہ مزدور جو ہاتھ پھیلا کر بھیک نہیں مانگتے، بلکہ ہنر سے روزی کماتے ہیں۔ مگر آج قدرت نے انہیں ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں وہ بے بس ہیں۔ ضرورت ہے کہ انہیں سہارا دیا جائے، ان کے بچوں کے مستقبل کو تاریکی سے نکالا جائے، اور انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ معاشرہ ان کے ساتھ کھڑا ہے۔