جماعت اسلامی کے زیراہتمام مالونی میں ’سیرت النبیؐ و اتحاد امت کانفرنس‘ کا انعقاد۔ اہم سوال : ہم بکھرے ہوئے کیوں ہیں؟
مالونی مہاڈا گراؤنڈ پر منعقد سیرت النبیؐ و اتحاد امت کانفرنس کا منظر۔ تصویر:آئی این این
جماعت اسلامی کے زیر اہتمام دیگر مسالک کے علماء وذمہ داران کی موجودگی میں اتوار کو مغرب کی نماز کے بعد مالونی کے مہاڈا گراؤنڈ میں ’سیرت النبیؐ و اتحاد امت کانفرنس‘ کا انعقاد عمل میں آیا۔ اس کانفرنس کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا کہ ایک دین، ایک نبیؐ، ایک قرآن ، ایک امت،قرآن ہمیں جوڑتا ہے اور سیرت ہمیں ایک بناتی ہے تو پھر ہم بکھرے کیوں رہیں؟ آئیے سیرت نبویؐ کے سائے تلے ایک امت بن کر سماج کیلئے فائدہ مند بن جائیں۔اسی تناظر میں علماء اور ذمہ داران نے حاضرین کی رہنمائی کی اور اتحاد کا پیغام دیا۔راشد خان نے قرآن وسنت کی روشنی میں اتحاد کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں ناانصافی کی شکایت اور انصاف کا دائرہ محدود ہونے سے بھی انکار نہیں مگر کیا محض شکایت کرنا اس مسئلے کا حل ہے۔انہوں نے سوال کیا کہ ہم آفاقی امت ہیں تو ذمہ داریاں بھی ایسی ہی ہیں۔ اسی تعلق سے ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے دبے کچلے اور محرومی کا شکار طبقے کی آواز بننے کی کوشش کی ، اگر نہیں تو کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ یاد رکھئے کہ ہم متحد ہوکر کوشش کریں تو مسائل کا حل یقیناً ممکن ہے۔
’مثالی نوجوان‘ عنوان پر مولاناانیس اشرفی نے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج ہم سب کی فکر یہ ہے کہ ہمارا نوجوان بے راہ روی کا، نشے کا اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ صرف اس نوجوان کی کرتوت ہے یا اس میں ہمارا بھی دخل ہے؟ آئیے ،اس کا جواب ہم دور نبویؐ اور آپ کی مبارک تعلیمات کی روشنی میں تلاش کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ فرمانے کے وقت کم و بیش ڈیڑھ لاکھ اصحاب رسول چھوڑے تھے، اس میں سے بڑی تعداد نوجوان اصحاب رسول کی تھی، آپ نے حکمت عملی کے تحت ان نوجوانوں کو مختلف قیادتیں سونپیں۔ اس فہرست میں سیدنا علی ، سیدنا حضرت عبداللہ بن عباس بھی تھے، علمی قیادت آقا ؐ نے ان کے حوالے فرمائی۔ اسی طرح اسامہ بن زید کو عسکری قیادت سونپی، اس وقت آپ کی عمر ۱۷؍ یا ۱۸؍ سال تھی۔ دوسری طرف ہماری یہ حالت ہے کہ ہمارے نوجوان اور ہمارے بڑوں کے درمیان خلاء ہے، اسے فوراً دور کرنے کی ضرورت ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ نوجوانوں کو قریب کرنے کیلئے ایسی کمیٹیاں بنائی جائیں جن میں ان کی نمائندگی ہو۔
’مثالی خاندان‘ عنوان پر مولانا رضوان ندوی نے مسلم علاقے میں صاف صفائی، راستوں پر قبضہ نہ کرنے، خوش خلقی، آپس میں اتحاد و اتفاق کی جانب توجہ دلائی۔ مولانا نے بچوں کی صحیح رخ پر تربیت کرنے اور والدین کو بچوں سے محبت کرنے کا یہ کہتے ہوئے پیغام دیا کہ ایسا نہ ہونے پر بچے دوسری جگہ اسے تلاش کریں گے۔ اس حوالے سے تعلیمات نبویؐ سے ہمیں روشنی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان اوصاف کو اپنانے سے گھر اور معاشرہ مثالی خاندان بنے گا۔ نوجوانو، یاد رکھو ایسا کوئی عمل نہ کرو جو تمہاری اور اہل خانہ کی رسوائی کا باعث ہو۔
مولانا شمیم اختر ندوی نے اتحاد ملت پر زور دیتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ اتحاد میں ایسی طاقت ہے کہ پھر حقوق مانگنے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ پھر آپ کا حق چھیننے والا سوچنے پر مجبور ہوگا، شرط ہے اتحاد کی۔ انہوں نے ترکہ میں بیٹیوں کے حقوق کی ادائیگی پر بطور خاص توجہ دلائی اور صلہ رحمی کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ یہ نبویؐ معاشرے کا بہترین ماڈل ہے۔
جماعت اسلامی کے نائب صدر مولانا ولی اللہ سعیدی نے سیرت نبویؐ کی روشنی میں کہا کہ دین واسلام کیلئے اس وقت تک قربانی نہیں دی جاسکتی جب تک دیگر چیزوں پر آپؐ سے محبت غالب نہ آجائے۔ آپؐ سے محبت کا مطلب یہ نہیں کہ محض آپ کا تذکرہ ہو بلکہ آپؐ کا اتباع کیا جائے۔ آپؐ کے معاملات، پاکیزہ اخلاق، لین دین، چلنا پھرنا آپؐ کی سنت کے مطابق ہو اور آپؐ کا نام نامی آنے پر درود وسلام بھیجا جائے۔ اندازہ کیجئے ،آپؐ نے دین پہنچانے کیلئے مکہ کا کوئی گھر ایسا نہیں تھا جس کا دروازہ ایک سے زائد مرتبہ نہ کھٹکھٹایا ہو۔ آپؐ دنیا میں اس لئے تشریف لائے کہ ظلم کا خاتمہ ہو، امن کا قیام ہو، غریبوں اور کمزوروں کے حقوق سلب نہ کئے جائیں۔ اسی طرح ہماری ذمہ داری یہ بھی ہے کہ برادران وطن تک دعوت الی اللہ پہنچائی جائے۔ مولانا نے مزید کہا کہ آئے دن مسلمانوں کے خلاف قانون پاس کیا جاتا ہے ،یاد رکھئے کہ یہ قدم مسلم مخالفت میں ہے نہ کہ مسلک کے حوالے سے۔ اگر ہم منتشر ہوئے تو ہم لقمہ تر بن جائیں گے۔ اس لئے اتحاد وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ آج ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ اسلام کے خلاف اٹھنے والی آواز کا ہم سب متحد ہوکر مقابلہ کریں گے۔ آج ملک میں نفرت اور ماب لانچنگ عام ہے، اسے بھی مل کر ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔برادران وطن سے تعلقات استوار کریں۔ ۸۰؍ فیصد برادرانِ وطن کا ذہن صاف ہے، ان کو قریب کریں اور ہمارے نوجوان اور ہماری بہن بیٹیاں اٹھیں اور خدمت ِخلق کے ذریعے اپنا تعارف کرائیں اور غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کریں۔
بڑی تعداد میں خواتین نے بھی اس پروگرام میں شرکت کی جس کی نظامت مولانا اختر الاسلام ندوی نے کی جبکہ مقامی امیر جماعت انور شیخ نے رسم شکریہ ادا کیا۔