عبوری وزیراعظم سشیلا کارکی نے عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلے عوامی خطاب میں کہا ’’ہمیں جنریشن زی کی سوچ کے مطابق کام کرنا ہوگا، جب کہ یہ طبقہ کرپشن کا خاتمہ، اچھی حکمرانی اور معاشی مساوات کا مطالبہ کررہا ہے‘‘، انہوں نے وعدہ کیا کہ ہم ۶؍ مہینے سے زیادہ یہاں نہیں رہیں گے اور ذمہ داریاں منتخب پارلیمنٹ اوروزراء کوسونپ دیں گے.
نیپال کی عبوری وزیر اعظم سشیلا کارکی۔ تصویر: آئی این این
نیپال کی نئی عبوری وزیراعظم سابق چیف جسٹس سشیلا کارکی نے اتوار کے روز عہدہ سنبھالتے ہی ’جنریشن زی مظاہرین‘ کے مطالبات پورا کرنے اور ’کرپشن کے خاتمے‘ کا وعدہ کیا ۔غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق نیپال میں ’جنریشن زی‘ کے احتجاج کے دوران درجنوں افراد کی ہلاکت کے بعد نیپال کے وزیرِاعظم کے پی شرما اویلی نے کرپشن مخالف احتجاج کے بڑھنے پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ گزشتہ روز، نیپال کی سابق چیف جسٹس سشیلا کرکی نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ’جنریشن زی مظاہرین کی درخواست پر عبوری حکومت کی قیادت قبول کر لی ہے۔۷۳؍ سالہ سابق چیف جسٹس سشیلا کارکی کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ امن بحال کریں اور۶؍ ماہ بعد ہونے والے انتخابات سے پہلے مظاہرین کے کرپشن سے پاک مستقبل کے مطالبات پر توجہ دیں گی۔
خیال رہے کہ نیپال میں سوشل میڈیا پر پابندی عائد کرنے کے بعد مظاہرے شروع ہوئے تھے جس نے پہلے سے موجود معاشی مسائل کو مزید بڑھا دیا تھا۔بعد ازاں، ان مظاہروں میں تیزی آئی اور مظاہرین نے پارلیمنٹ سمیت کئی اہم سرکاری عمارتوں کو آگ لگادی ، اس دوران پولیس نے مظاہرین کو منشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا تھا جس کے نتیجے میں۷۰؍ سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
عبوری وزیراعظم سشیلا کارکی نے عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلے عوامی خطاب میں کہا ’’ہمیں جنریشن زی کی سوچ کے مطابق کام کرنا ہوگا، جب کہ یہ طبقہ کرپشن کا خاتمہ، اچھی حکمرانی اور معاشی مساوات کا مطالبہ کررہا ہے۔‘‘
عالمی بینک کے مطابق نیپال میں۱۵؍ سے۲۴؍ سال کی عمر کے ہر۵؍ میں سے ایک فرد بے روزگار ہے، جب کہ۳؍ کروڑ آبادی والے اس ملک کی فی کس آمدنی صرف ۱۴۴۷؍ ڈالر ہے۔اتوار کو نئی عبوری وزیراعظم نے سرکاری کمپلیکس میں اہم اجلاس کی صدارت کی ، جہاں منگل کو عوامی مظاہروں کے دوران کئی عمارتوں کو آگ لگائی گئی تھی۔حکومت کے چیف سیکریٹری نارائن آریال کے مطابق اتوار تک ۲؍ دن کے احتجاج میں کم از کم۷۲؍ افراد ہلاک اور۱۹۱؍ زخمی ہوئے، جو اس سے قبل جاری کر دہ ۵۱؍ ہلاکتوں کے اعداد و شمار سے زیادہ ہیں۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا ’’ میں اپنی مرضی سے نہیں آئی، میں جس صورت حال میں آئی ہوں، میرا نام گلیوں سے پکارا گیا۔‘‘یاد رہے کہ نیپال کی پارلیمنٹ تحلیل کر دی گئی ہے اور ملک میں نئے انتخابات۵؍مارچ ۲۰۲۶ء کو ہوں گے۔نئی عبوری وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں کہا ’’ ہم کسی صورت۶؍ ماہ سے زیادہ یہاں نہیں رہیں گے، ہم اپنی ذمہ داریاں مکمل کریں گے اور پھر یہ ذمہ داری پارلیمنٹ اور وزرا کے حوالے کر دیں گے۔‘‘عام نیپالی شہریوں نے امید ظاہر کی کہ حکومت تبدیلی لائے گی، مگر یہ بھی تسلیم کیا کہ چیلنجز بہت بڑے ہیں۔
دوسری جانب، عبوری سربراہ کے حلف لینے کے بعد فوجیوں نے سڑکوں پر اپنی موجودگی کم کر دی ہے، جہاں وہ مظاہروں کے بعد بڑی تعداد میں تعینات تھے۔تاہم بدامنی کے دوران۱۲؍ہزار۵۰۰؍ سے زیادہ قیدی جیلوں سے فرار ہو گئے تھے جو سیکوریٹی کے لیے بڑا مسئلہ بن گئے ہیں۔
اس دوران نیپال کی فوج نے کہا ہے کہ احتجاج کے بعد صورتحال سے نمٹنے اور مسئلے کو حل کرنے کے لیے متعلقہ فریقین آپس میں رابطے میں ہیں، میڈیا نے یہ بھی کہا کہ حکام اور مظاہرین کے درمیان مذاکرات کی تیاری کی جا رہی ہے، تاہم تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔زیادہ تر مظاہرین نوجوان تھے جو حکومت کی بدعنوانی سے نمٹنے میں ناکامی اور معاشی مواقع نہ دینے پر مایوسی کا اظہار کر رہے تھے، اسی لیے ان مظاہروں کو ’جنریشن زیڈ مظاہرے‘ کہا جا رہا ہے۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکریٹری رمن کمار کرنا (جن سے مظاہرین نے مشورہ کیا) نے کہا کہ نوجوان مشتعل افراد سابق چیف جسٹس سشیلا کرکی کو عبوری وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں ۔سشیلا کارکی نے اس پر کہاکہ’ ’جب انہوں نے مجھ سے درخواست کی، میں نے قبول کر لی۔‘‘’جنریشن زیڈ‘ کے نمائندوں نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے بعد میں فوجی حکام سے ملاقات کی اور کارکی کو عبوری حکومت کے سربراہ کے طور پر تجویز کیا ۔