Updated: May 21, 2025, 3:04 PM IST
| Abuja
نائجیریا کے ایک دور دراز گاؤں ’’یوبانگ‘‘ میں مرد اور عورتیں روزمرہ کی چیزوں کیلئے الگ الگ الفاظ استعمال کرتے ہیں، یہ روایت مقامی داستانوں سے جڑی ہوئی ہے۔ اگرچہ گرامر ایک جیسی رہتی ہے، لیکن اسم اور کچھ افعال مختلف ہوتے ہیں، جس سے زبان کا ایک انوکھا امتزاج بنتا ہے۔
وہ قبیلہ جہاں ایک ہی شئے کیلئے مرد و عورت مختلف الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ تصویر: ایکس
نائجیریا کے ایک دور دراز گاؤں ’’یوبانگ‘‘ میں مرد اور عورتیں روزمرہ کی چیزوں کے لیے الگ الگ الفاظ استعمال کرتے ہیں، یہ روایت مقامی داستانوں سے جڑی ہوئی ہے۔ اگرچہ گرامر ایک جیسی رہتی ہے، لیکن اسم اور کچھ افعال مختلف ہوتے ہیں، جس سے زبان کا ایک انوکھا منظرنامہ بنتا ہے۔ یہ دلچسپ ثقافتی روایت، جہاں صنف زبان کو تشکیل دیتی ہے، جدیدیت کے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے کیونکہ نئی نسل مرکزی دھارے کی زبانوں کو اپنا رہی ہے۔
اس گاؤں کے باشندے کاشتکاری سے وابستہ ہیں، اس معاشرے کے لڑکے اور لڑکیاں مختلف الفاظ سیکھ کر بڑے ہوتے ہیں۔ جوانی تک ہر مرد اور عورت ایک دوسرے کی بات پوری طرح سمجھ لیتے ہیں، لیکن وہ روزمرہ کی چیزوں کیلئے شاذونادر ہی ایک جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، عورت کے لیے لباس ’’کاکیٹ‘‘ہے جبکہ مرد کے لیے ’’نکی‘‘، جوتے کے لیے عورت ’’ابوو‘‘ کہتی ہے اور مرد ’’اوکپوک‘‘، یوبانگ میں زبان خود صنفی تقسیم رکھتی ہے۔ بچے اپنے ابتدائی سال اپنی ماؤں کے ساتھ گزارتے ہیں، اس لیے چھوٹے بچے، چاہے لڑکا ہو یا لڑکی، پہلے عورتوں کے الفاظ سیکھتے ہیں۔ تقریباً پانچ یا چھ سال کی عمر میں لڑکوں پر ’’زبان کی تبدیلی‘‘ آتی ہے۔ باپ، چچا اور بڑے بھائی لڑکوں کو غلطی سے بولے گئے ’’عورتوں والے‘‘ الفاظ درست کرنے لگتے ہیں۔ چند مہینوں کے اندر لڑکے تقریباً مکمل طور پر مردوں کے الفاظ استعمال کرنے لگتے ہیں۔ جبکہ لڑکیاں اپنے سیکھے ہوئے الفاظ پر قائم رہتی ہیں۔ جوانی تک یہ تقسیم مکمل ہو جاتی ہے: دو بولیاں، جو ایک دوسرے کی سمجھ میں آتی ہیں لیکن الگ ہیں، گھر گھر میں ساتھ ساتھ موجود ہوتی ہیں۔
یوبانگ کے ماہر لسانیات ’چی چی ڈی اینڈیفون‘نے تقریباً ۴۰۰؍ بنیادی الفاظ کی فہرست بنائی ہے جن کے صنفی متبادل ہیں، جو روزمرہ استعمال ہونے والے الفاظ کا تقریباً چوتھائی حصہ ہیں۔ گرامر اور ساخت ایک جیسی ہونے کی وجہ سے جملے ایک ہی طرح بنتے ہیں، لیکن اسم اور کچھ افعال بدل جاتے ہیں۔ مثلاً، عورتیں درخت کے لیے ’’اونگیم‘‘کہتی ہیں جبکہ مرد ’’اوکین‘‘ کہتے ہیں۔ عورتیں پانی ’’للی‘‘ سے لاتی ہیں، مرد ’’بالا‘‘ سے۔ دونوں یہ جملہ بنا سکتے ہیں: ’’میں نے درخت کاٹا‘‘ ، لیکن ہر ایک اپنا صنفی اسم استعمال کرے گا۔ چونکہ لہجہ، ضمائر اور فعل کے اختتام ایک جیسے ہیں، اس لیے الفاظ کی تقسیم کے باوجود گفتگو رواں رہتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل کا غزہ کو ۳؍ حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ، نقشہ تیار؟
مقامی روایات کے مطابق، خدا نے اصل میں یوبانگ کو تین زبانیں دی تھیں، ایک مردوں کیلئے، ایک عورتوں کیلئے، اور ایک زائد جو وقت کے ساتھ غائب ہو گئی۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ خدائے بزرگ و برتر نے فیصلہ دیا کہ اگر مرد اور عورتیں ہر لفظ شیئر کریں گے تو جھگڑے ہوں گے، اس لیے مختلف زبانیں امن قائم رکھیں گی۔ ایک اور داستان کے مطابق، یہ تقسیم جنگی وقت میں الجھن سے بچنے کیلئے بنائی گئی تھی: دشمن جاسوس باتوں کا صرف آدھا حصہ ہی سمجھ پاتے تھے۔ اگرچہ مورخین ان کہانیوں کو سچ نہیں مانتے، لیکن یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہ رجحان معاشرے کی شناخت میں کتنا گہرا رچا بسا ہے۔ تاہم نئے دور میں اس تہذیب کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے، نئی نسل تعلیم کیلئے ’’ کالابار‘‘ اور ’’ لاگوس‘‘ جا رہی ہے، جہاں وہ انگریزی اور نائیجریائی زبان سیکھ رہے ہیں۔اس کے علاوہ ابتدائی اسکولوں میں اب انگریزی کو ترجیح دی جا رہی ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لڑکوں میں زبان کی تبدیلی کے مواقع کم ہو رہے ہیں۔ اس کو دیکھتے ہوئے معاشرے کے رہنماؤں نے دونوں بولیاں محفوظ کرنے کیلئے شام کی غیر رسمی کلاسیں اور ریکارڈنگ منصوبے شروع کیے ہیں۔