Inquilab Logo

مالونی میں ہندو جن آکروش مورچے میں نتیش رانے کی اشتعال انگیزی

Updated: March 04, 2024, 1:51 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Malvani

لوجہاد، لینڈ جہاد، ہندوپلائن اور ڈرگس جیسے اکسانے اور اشتعال دلانے والے موضوعات کو بنیاد بناکر نعرے بازی کی گئی۔ مدرسوں اور مساجد کو توڑنے کا بھی نعرہ بلند کیا گیا۔ ڈرگ مافیا پر سخت کارروائی کا مطالبہ۔ ہندوؤں کے گھروں میں قبضہ اور مدرسہ چلانے کا بے بنیاد اور جھوٹا الزام لگایا۔پولیس کا زبردست بندوبست ۔ مساجد کے قریب فساد کنٹرول فورس تعینات کی گئی تھی۔

During the `Hindu Jan Akrosh` march in Maloney, provocations were made and Nitish Rane targeted Muslims. Photo: INN
مالونی میں ’ہندو جن آکروش‘ مورچہ کے دوران اشتعال انگیزی کی گئی اور نتیش رانے نے مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔ تصویر : آئی این این

اتوار کو مالونی میں سکل ہندو سماج کی جانب سے ’ہندو جن آکروش‘ مورچہ نکالا گیا اور جم کر اشتعال انگیزی کی گئی، خاص طور پر نتیش رانے نے مسلمانوں کو نشانہ بنایا، ہندؤوں کو ورغلایا، اکسایا اور ان کو مسلمانوں کے خلاف تیار ہونے کی اپیل کرتے ہوئے ڈرایا بھی۔ یہ مورچہ بس ڈپو گیٹ نمبر۸؍ سے فائر بریگیڈ گیٹ نمبر ایک تک نکالا گیا اور گیٹ نمبر ایک پر ویرادیسائی میدان پر جلسے پر ختم ہوا۔ جگہ جگہ لگائےگئے بینروں پر اشتعال انگیزی اور مسلمانوں کو اُکسانے کی جھلک بینر میں لکھے گئے موضوعات ’بھومی جہاد، لَوجہاد، ہند و پلائن اورڈرگس ‘ وغیرہ کا احاطہ کیا گیا تھا۔ اس دوران جے شری رام کے نعرے کے ساتھ جو ہندو ہت کی بات کرے گا وہی دیش پر راج کرے گا، کا نعرہ لگایا گیا۔ مورچے میں شامل ہونے والے ڈی جی کھیتان انٹر نیشنل اسکول کی بسوں سے بھی آئے تھے اور تمام شرکاء اپنے گلے میں بی جے پی اور بھگوا پٹہ ڈالے ہوئےتھے۔ نتیش رانے بھی پوری طرح بھگوا رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ 
مالونی میں ہندو مسلم کا اتحاد اور بھائی چارہ مثالی ہے مگر نتیش رانے نے غلط بیانی کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ہندو خوفزدہ ہیں۔ پولیس والوں نے ہم سے کہا کہ مورچہ ساڑھے ۵؍بجے تک ختم کردو کیونکہ اذان اور نماز کا وقت ہوجاتا ہے۔ یہ دیش ہندوراشٹر بن رہا ہے اور ہم کو ہی روکا جارہا ہے۔ عرس ہورہا ہے، دوسرے پروگرام ہورہے ہیں، اس پر کوئی پابندی نہیں۔ یہ زمین یا علاقہ کیا کسی کے باپ کا ہے۔ ہم بابا صاحب کا آئین ماننے والے ہیں، اس میں عرس اور محرم کا ذکر ہوتو بتاؤ، مگر یہ نالائق ایسا کررہے ہیں۔ مسلمان بابا صاحب کے سمویدھان کو نہیں ‌ مانتے وہ شریعہ قانون لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ 
 انہوں نے ہندوؤں کواشتعال دلاتے ہوئے کہا کہ جاگ جاؤ اور دھرم کی رکشا کے لئے تیار ہو جاؤ ورنہ مندروں میں بھی پوجا پاٹھ مشکل ہوجائے گی اور مالونی کا نام‌ مظفر نگر ہوجائے گا۔ مسلمان لینڈ جہاد کررہے ہیں اور پی نارتھ کے فلاں فلاں بی ایم سی افسران بریانی کھارہے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ سال رام‌ نومی کے موقع پر ہونے والے تشدد کو غلط انداز میں توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس دوران چپل اور پتھر پھینکے گئے، میری خواہش تھی کہ آج بھی ایسا ہوتا تو میں مسجد میں گھس کرمارتا اور دیکھتا کہ ان‌ میں کتنا دم ہے۔ یاد رکھو، تم کو چن چن کر ماریں گے اور ایک ایک چیز کا حساب لیں گے۔ میں کہتا ہوں کہ پولیس والوں کو چھٹی دے دو اور مجھے ۲۴؍گھنٹے کی مہلت دے دو، اگر سب کو ٹھیک نہیں کردیا تو میرا بھی نام نتیش رانے نہیں۔ 
 نتیش رانے نے اپنی اشتعال انگیزی جاری رکھتے ہوئے مسجد حضرت علی کے ذمہ دار جمیل مرچنٹ کو دھمکی دی اور ان کے تعلق سے نامناسب الفاظ استعمال کئے۔ یہ بھی الزام لگایا کہ مالونی میں ایک ایک گھر میں تیس، چالیس روہنگیا مسلمان رہتے ہیں، چار، پانچ منزلہ مکان اور جگہ جگہ جگہ قبضہ کرکے مدرسے بنائے جارہے ہیں، ۵؍ مرتبہ بھونگا (اذان کے لئے مائک ) بجایا جاتا ہے، ۴؍ منزلہ بلڈنگ کی منظوری لے کر ۱۳؍منزلہ تعمیر کی جا رہی ہے، ہندو نقل مکانی کررہے ہیں اور ان کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ مگر یاد رہے کہ اگر ان کا علی ہے تو ہمارا بجرنگ بلی ہے اور وہ کیا کرے گا، اچھی طرح سمجھ لو۔ مالونی میں اگر کبھی فساد ہوا تو یہ روہنگیا ہندوؤں کو نشانہ بنائیں گے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے بھیونڈی اور آزاد میدان میں تشدد کا حوالہ دیتے ہوئے رضا اکیڈمی کو نشانہ بنایا اور مالیگاؤں کو منی پاکستان قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسی لئے وہاں پولیس کمشنر کا دفتر بنایا جارہا ہے۔ 
 رکن اسمبلی نتیش رانے نے مزید کہا کہ اگر رہنا ہے تو سلیقے سے رہو، ورنہ پاکستان جاؤ۔ اسی طرح میں یہ صاف کردینا چاہتا ہوں کہ اگر پولیس والوں نے بنگلہ دیشیوں کو نہ نکالا تو ہم ان کے گھروں میں گھسیں گے۔ آج یہاں کے حالات یہ ہیں کہ ٹیپو سلطان سے محبت کی جارہی ہے، یہ شخص ہندو مخالف تھا۔ اس کے علاوہ ہمیں اپنے جوانوں اور بہن بیٹیوں کی حفاظت کرنی ہوگی تاکہ وہ لو جہاد کا شکار نہ ہوں۔ 
پولیس کا‌مثالی بندوبست
حالات کی سنگینی اور رام نومی کے تشدد کو دھیان میں رکھ کر پولیس کا سخت مثالی بندوبست کیا گیا تھا۔ جامع مسجد اور مسجد علی کے قریب خاص طور پر رائٹس کنٹرول فورس لگائی گئی، ڈرون کیمرے کا استعمال کیا گیا اور کیمرے والی وین لگائی گئی جبکہ ڈی سی پی، اے سی پی اور سینئر انسپکٹرز کے علاوہ دیگر تھانوں سے بھی پولیس بلائی گئی اور ٹریفک پولیس کے افسران اور اہلکار مسلسل گشت کرتے رہے۔ مورچے کی وجہ سے سبزی مارکیٹ اور قریب کی دکانیں بند رہیں، آٹو رکشا اور ٹیکسی نہ ملنے سے لوگوں کو کافی پریشانی ہوئی اور چند گھنٹے تک ٹریفک نظام بھی درہم برہم رہا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK