Inquilab Logo

محکمہ انکم ٹیکس میں ۱۲؍ہزار اسامیاں خالی ہیں

Updated: February 04, 2024, 5:53 PM IST | Agency | Mumbai

سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکس (سی بی ڈی ٹی) کے چیئرمین نتن گپتا نے کہا ہے کہ محکمہ انکم ٹیکس میں۱۰؍ہزار سے۱۲؍ہزار ملازمین کی کمی ہے اور خالی اسامیوں کو پُر کرنے کیلئے  اقدامات کئے  جا رہے ہیں۔

Nitin Gupta. Photo: INN
نتن گپتا۔ تصویر : آئی این این

سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکس (سی بی ڈی ٹی) کے چیئرمین نتن گپتا نے کہا ہے کہ محکمہ انکم ٹیکس میں۱۰؍ہزار سے۱۲؍ہزار ملازمین کی کمی ہے اور خالی اسامیوں کو پُر کرنے کیلئے  اقدامات کئے  جا رہے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ عبوری بجٹ میں ۲۵۰۰۰؍ روپے تک کی بقایا ٹیکس ڈیمانڈ واپس لینے کے اعلان کے تحت ٹیکس دہندگان کو ایک لاکھ روپے تک کی راحت مل سکتی ہے۔ اس سے ان ٹیکس دہندگان کو فائدہ پہنچے گا جنہیں مقررہ مدت میں ایک سال سے زائد عرصے کیلئے ٹیکس ڈیمانڈ کے حوالے سے نوٹس موصول ہوئے ہیں۔
گپتا نے پی ٹی آئی کے ساتھ خصوصی بات چیت میں کہاکہ ’’انکم ٹیکس محکمہ میں۱۰؍ہزار سے ۱۲؍ہزار ملازمین کی کمی ہے۔ یہ پوسٹس بنیادی طور پر گروپ `سی کیٹیگری سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان اسامیوں کو پُر کرنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔محکمہ میں ملازمین کی کل تعداد۵۵؍ ہزار کے لگ بھگ ہے۔
جب عبوری بجٹ میں۲۵؍ہزار روپے تک کے ٹیکس کی مانگ کو واپس لینے کے بارے میں پوچھا گیا تو گپتا نے کہاکہ ’’اس اقدام کا مقصد ٹیکس دہندگان کو راحت فراہم کرنا ہے۔ اس کے تحت ہم فی ٹیکس دہندہ ایک لاکھ روپے تک کی حد برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے۔ یعنی اگر ٹیکس دہندگان کو ایک سال سے زائد عرصے سے ٹیکس ڈیمانڈ کے حوالے سے نوٹس موصول ہوا ہے تو اسے ایک لاکھ روپے تک  کی راحت  مل سکتی ہے۔
وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے ۲۵۔۲۰۲۴ء کیلئے  اپنی عبوری بجٹ تقریر میں۱۰۔۲۰۰۹ء تک ۲۵؍ہزار روپے تک اور مالی سال۱۱۔۲۰۱۰ء سے ۱۵۔۲۰۱۴ء تک۱۰؍ہزار روپے تک کے بقایا براہ راست ٹیکس کے مطالبات کو واپس لینے کا اعلان کیا۔
 سیتا رمن نے کہاکہ ’’بڑی تعداد میں چھوٹے براہ راست ٹیکس کے مطالبات بھی کھاتوں کی کتابوں میں زیر التوا ہیں۔ ان میں سے بہت سے مطالبات ۱۹۶۲ء سے پرانے ہیں۔ اس سے دیانتدار ٹیکس دہندگان کو پریشانی ہوتی ہے اور ریفنڈس کے حوالے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔‘‘سی بی ڈی ٹی کے سربراہ نے کہاکہ ’’اس طرح کے تقریباً۱ء۱۱؍ کروڑ متنازع مطالبات ہیں اور اس میں شامل ٹیکس کی کل مانگ ۳۵۰۰۔۳۶۰۰؍ کروڑ روپے ہے۔ اس قدم سے تقریباً۸۰؍ لاکھ ٹیکس دہندگان کو فائدہ پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس حوالے سے ضروری احکامات جاری کریں گے، ٹیکس دہندگان کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
براہ راست ٹیکس (انکم ٹیکس اور کمپنی ٹیکس) کی وصولی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ۳۱؍ جنوری تک ریفنڈ کے بعد۱۴ء۴۶؍ لاکھ کروڑ روپے موصول ہوئے ہیں، جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں۲۰؍ فیصد زیادہ ہے۔
 ایک سوال کے جواب میں گپتا نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال، اپیلوں، تشخیص اور جرمانے کے `فیس لیس  نظام کی وجہ سے ٹیکس وصولی میں اضافہ ہوا ہے۔ ’فیس لیس‘ اقدامات نے ٹیکس دہندگان اور اہلکاروں کے درمیان براہ راست تعامل کو ختم کردیا ہے اور اعتماد میں بھی اضافہ کیا ہے۔
لوگوں کو اب بھی رقم کی واپسی میں درپیش مسائل کے بارے میں، سی بی ڈی ٹی کے سربراہ نے کہاکہ ’’ریفنڈس پھنس جانے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ جہاں انکم ٹیکس ریٹرن کی تفصیلات میں ڈیٹا میں تضادات ہیں، ہم تحقیقات کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت کے پیسے کا غلط استعمال نہیں ہوتا۔ کئی بار بینک اکاؤنٹ نمبر کی معلومات غلط ہو جاتی ہیں، بہت سے معاملات میں بینکوں کے انضمام کی وجہ سے آئی ایف ایس سی کوڈ بدل گئے ہیں۔ کچھ معاملات میں، ملازمت کی منتقلی، بینک کی شاخ کی تبدیلی یاآئی ایف ایس سی کوڈ کی تبدیلی کے نتیجے میں رقم کی واپسی میں تاخیر ہوتی ہے۔ بعض اوقات تکنیکی مسائل بھی ہوتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اگر ٹیکس دہندہ درست معلومات دے اور بینک کی تفصیلات درست طریقے سے پُر کرے تو رقم کی واپسی میں کوئی تاخیر نہیں ہوگی۔
 گپتا نے کہاکہ ’’ہماری توجہ ٹیکس دہندگان کو فراہم کی جانے والی خدمات کو مزید بہتر بنانے پر ہے جس میں ریفنڈز کو تیز کرنا، ٹیکس کے زیر التواء تنازعات کو حل کرنا شامل ہے۔ چھوٹی رقم کی متنازع  ٹیکس ڈیمانڈ کو ختم کرنا اسی کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ۲۸؍ جنوری۲۰۲۴ء تک۳ء۶۲؍ کروڑ معاملوں میں کل۲ء۷۵؍  لاکھ کروڑ روپے واپس آچکے ہیں۔ زیر التواء ریفنڈز پر بھی کام جاری ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اب تک کے رجحان کو دیکھتے ہوئے نئے ٹیکس نظام کے تحت۶۰؍ فیصد ٹیکس دہندگان کے آنے کی امید ہے۔ اس حوالے سے ڈیٹا اگست تک آنے کا امکان ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK