• Wed, 08 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

۳؍ امریکی اور جاپانی سائنسدانوں کو طب کا نوبیل انعام

Updated: October 07, 2025, 2:54 PM IST | Agency | Stockholm

’پریفیرل امیون ٹولرنس‘ سے متعلق ان کی دریافتوں نے ارتھرائٹس اور ذیابیطس کےعلاج میں مدد کی۔

Scientists who won the Nobel Prize in Medicine for 2025. Photo: INN
طب کا نوبیل انعام برائے ۲۰۲۵ء پانے والے سائنسداں۔ تصویر: آئی این این
۲۰۲۵ء کے  نوبیل انعاموں کے اعلان کا سلسلہ پیر سے شروع ہوگیا۔  اس سلسلے میں پہلا اعلان  فزیولوجی یا میڈیسن  (طب) کے انعام کا کیاگیا۔ اس کیلئے  امریکہ کی میری ای برونکو، امریکہ کے ہی  فریڈ رامسڈیل اور جاپان کے شیمون سکاگوچی کو منتخب کیاگیا ہے۔ یہ انعام ان کی ’پریفیرل امیون ٹولرنس‘ (جسم کے بیرونی حصوں میں مدافعتی نظام کی برداشت) سے متعلق دریافتوں کیلئے ہے۔ اس دریافت نے جسم کے دفاعی نظام کو سمجھنے میں انقلاب برپا کر دیا ، جو آٹومیون بیماریوں جیسے رومیٹائڈ آرتھرائٹس، ٹائپ-وَن، ذیابیطس اور لیوپس کے علاج کا راستہ ہموار کرے گی۔ اسٹاک ہوم کے کارولینسکا انسٹی ٹیوٹ نےپیر کو  ان کے ناموں کااعلان کیا ۔
واضح ہو کہ ہمارے جسم کا امیون سسٹم (قوت مدافعت) ہمیشہ   وائرس یا بیکٹریا  جیسے خطروں سے لڑتا ہے۔ اس دوران کبھی کبھی یہ سسٹم غلطی سے اپنے ہی حصوں پر حملہ کر دیتا ہے، جسے آٹومیون کی بیماری کہتے ہیں۔ پہلے سائنسدانوں کو لگتا تھا کہ امیون سیلس (جراثیم سے لڑنے والے خلیات) جسم کے اندر ہی پرسکون ہو جاتے ہیں، جسے سینٹرل امیون ٹالرنس کہتے ہیں لیکن   ای برونکو، فریڈ رامسڈیل اور یمون سکاگوچی کی تحقیق سے ظاہر ہوا کہ جسم کے بیرونی حصوں (پیریفیرل) میں بھی ایک خاص سسٹم کام کرتا ہے۔ یہ  امیون سسٹم کو منظم رکھتا ہے۔ اس کی وجہ سے جسم کے اعضاء محفوظ رہتے ہیں۔ اس دریافت کی شروعات۱۹۹۰ء کی دہائی سے ہوئی تھی۔ انعام یافتگان نے پایا کہ ’ریگولیٹری ٹی سیلس‘ (ٹریگس) نامی خلیات امیون سسٹم پر بریک لگاتی ہیں۔
اگر یہ خلیات کمزور ہوں تو جسم کے اعضاء پر حملہ ہوتا ہے۔ یہ دریافت کینسر، ٹرانس پلانٹ اور الرجی کے علاج میں بھی معاون ثابت ہوگی۔ شیمون سکاگوچی کو ریگولیٹری ٹی سیلس کی دریافت کیلئےجانا جاتا ہے۔ ۱۹۹۵ء میں انہوں نے دکھایا کہ سی ڈی۴+ سی ڈی۲۵+ خلیات امیون سسٹم کو دباتے ہیں، یہ خلیات جسم کو اپنے ہی ٹشوز سے لڑنے سے روکتے ہیں۔ سکاگوچی کی دریافت سے معلوم ہوا کہ ’ٹریگس‘ امیون ٹالرنس برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ان کے کام نے آٹومیون بیماریوں کی سمجھ بدل دی ہے۔ آج ٹریگس میں ردوبدل کر کے ادویات بنائی جا رہی ہیں۔
میری برونکو اور فریڈ رامسڈیل نے فاکسپی۳ (ایف او ایکس پی۳) جین کی دریافت کی، جو ٹریگس خلیات کا ’ماسٹر سوئچ‘ ہے۔تینوں سائنسداں نے یہ ثابت کر دیا کہ سنٹرل ٹالرنس کے علاوہ پیریفیرل ٹالرنس بھی ضروری ہے۔ ان کی دریافت اب ادویات میں استعمال ہو رہی ہیں، جیسے آٹومیون بیماریوں کیلئےٹریگس تھیریپی۔قابل ذکر ہے کہ یہ نوبیل انعام آٹومیون بیماریوں سے نبرد آزما کروڑوں افراد کیلئےامید ہے۔ دنیا میں۵۰؍ ملین سے زیادہ لوگ ان بیماریوں سے متاثر ہیں۔   انعام کی رقم۱۱؍ملین سویڈش کرونا (تقریباً ۸ء۵؍ کروڑ رپے) ہے، جو تینوں فاتحین میں تقسیم ہوگی۔ دسمبر میں اسٹاک ہوم میں منعقدہ تقریب میں نوبیل انعام دیا جائےگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK