Inquilab Logo Happiest Places to Work

اپوزیشن کا مرکز سے امریکہ کی مذمت کا مطالبہ

Updated: June 23, 2025, 3:44 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi

سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے حکومت سے امریکی حملہ کی مذمت کا مطالبہ کیا، کہا’’اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو گلوبل ساؤتھ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گا‘‘، ترنمول کانگریس کے ساکیت گھوکھلے نے کہاکہ کسی دوسرے ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی پرہم خاموش نہیں بیٹھ سکتے۔

Kapil Sibal. Photo: INN
کپل سبل۔ تصویر: آئی این این

 ایران کی ایٹمی تنصیبات پر امریکی حملوں   کے خلاف سوشل میڈیا پر بھی ردعمل کا اظہار کیا جارہاہے۔ گرچہ ایران پر اسرائیل کی جارحیت کے بعد سے ہی ایک طبقہ اسرائیل کی حمایت میں  پوسٹ  ڈالتا آرہاہے اور غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کی بھی حمایت کرتا ہے، تاہم ملک میں  اپوزیشن سمیت ایک بڑا طبقہ ایسا بھی ہے جو اسرائیلی جارحیت اور امریکہ کی چودھراہٹ کی کھل کر مذمت کررہے ہیں  اور غزہ وایران کی حمایت کررہے ہیں۔ کانگریس نے غزہ اور ایران پر اپنا موقف پوری طرح سے پہلے ہی واضح کردیا ہے۔ 
سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر امریکی حملوں  کی سخت تنقید کرتے ہوئے حکومت ہند سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک موقف اختیار کرتے ہوئے اس کیلئے امریکہ کی مذمت کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم نے ایسا نہیں  کیا توگلوبل ساؤتھ ہمیں  کبھی معاف نہیں  کرے گا۔ ادھر ادھر کے بیانات سے کام نہیں  چلے گا۔ سبل نے مزید کہا کہ ٹرمپ نے ہمیں کافی شرمندہ کیا ہے۔ ایسے میں  ہندوستان کو کھڑے ہوجانا چاہئے۔ اسے کا م کرنے کا صحیح وقت یہی ہے۔ 
 اسی طرح ترنمول کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ ساکیت گوکھلے نے اپنا ایک پرانا ٹویٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ۶؍ سال بعدبھی کچھ نہیں بدلا۔ ایک طرف ہندوستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کا خواہشمند ہے لیکن جب کسی دوسرے ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو ہم خاموش نہیں بیٹھ سکتے۔ انہوں نے ایران پر بمباری کوشرمناک قرار دیا۔ ساکیت گوکھلے نے اپنے پرانے ٹویٹ میں  ایران کو انتہا پسنداور جارحیت پسند قرار دینے پر عالمی میڈیا کی تنقید کی تھی۔ 
صحافی رعنا ایوب نے بھی امریکی حملے کے بعد سوال کیا کہ آخر ہندوستان کا اس پر ردعمل کیا ہوگا، کیونکہ ایران ہندوستان کا دیرینہ اتحادی رہا ہے۔ پرگیا گپتا نام کی ایک یوزر نےحکومت کی تنقید کرتے ہوئے اڈانی کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ اس شخص کی وجہ سے حکومت اسرائیل کی کٹھ پتلی بن گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان نے غزہ کی حمایت میں ووٹ نہیں دیا تھا۔ مودی کے ساتھ اس شخص کی دوستی نے آج ہندوستان کے امن، ترقی، معیشت، خوشحالی اور سلامتی کو نقصان پہنچایا ہے۔ ایک یوزر تنمے نے لکھا کہ ہندوستان کو ایران کے ساتھ کیوں  کھڑا ہو نا چاہئے؟ ۱۹۹۴ء میں  ایران نےہندوستان کو بین الاقوامی پابندیوں سے بچایا اور پاکستان کی سازش کو ناکام بنایا۔ یہ سب ہندوستان کی خارجہ پالیسی کی وجہ سے ممکن ہوا۔ ہندوستان اور اس کی خارجہ پالیسی کو آج مودی سرکار نے تباہ کر دیا ہے۔ امریکہ کا غلام بن کر اس نے اپنی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی ہے۔ 
ایران کے تین نیوکلیائی تنصیبات پر امریکی حملہ پرمجلس کے سربراہ اسدالدین اویسی نے اپنے ردعمل میں اسے بین الاقوامی قوانین اور خود امریکی آئین کی خلاف ورزی قرار دیا۔ انہوں نے اسرائیل کے انتہا پسند وزیراعظم نیتن یا ہو کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے فلسطینیوں کا قتل عام کیا ہے۔ وہ مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ تاریخ اسے فلسطینیوں کے قصائی کے طور پر یاد رکھے گی۔ 
اویسی نے ایک خبر رساں  ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکی پالیسی صرف اسرائیلی حکومت کے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے ہے۔ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ نسل کشی ہے اور کوئی اس پر بات نہیں کر رہا۔ کوئی یہ کیوں نہیں پوچھتا کہ اسرائیل کے پاس کتنے ایٹمی ہتھیارہیں ؟ ایران میں ان تین یا چار مقامات پر امریکہ کی بمباری ان کو نہیں روکے گی۔ اویسی نے کہا کہ آئندہ پانچ سے ۱۰؍برسوں  میں ایران یہ کرلے گا دوسرے ممالک بھی ایساکریں  گے، کیونکہ انہیں  معلوم ہوگیا کہ ایٹمی بم اور ایٹمی ہتھیارکا ہونا ہی اسرائیل کی داداگیری کے خلاف واحد حل ہے۔ 
 اویسی نے امریکی صدر ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے پر پاکستان پر طنز کیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا پاکستان نے ٹرمپ کی حمایت صرف اس لیے کی تھی کہ امریکہ ایران پر بم گرائے۔ ہمیں پاکستانیوں سے پوچھنا چاہئے کہ کیا وہ چاہتے ہیں کہ ٹرمپ کو امن کا نوبیل انعام ملے کیونکہ انہوں نے اس کی تجویز دی تھی۔ کیا پاکستان کے جنرل آرمی چیف عاصم منیر نے اس کے لیے امریکی صدر کے ساتھ لنچ کیا تھا؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK