پاکستان میں انتخابات کے بعد حکومت سازی کیلئے اب نواز شریف اور پی ٹی آئی میں کوششیں جاری ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک لیڈر نے کہا کہ پاکستان میں عمران خان کے بغیر کوئی حکومت نہیں بن سکتی۔ پارٹی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے اور حکومت سازی کا اختیار ہماری پارٹی کو ہونا چاہئے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان پریس کانفرنس کرتے ہوئے۔ تصویر : آئی این این
پاکستان میں جب حزب اختلاف کی پارٹیاں مخلوط حکومت بنانے کیلئے آپس میں گفت شنید کر رہی ہیں جیل میں قید عمران خان کی پارٹی کے ایک سینئر لیڈر نے کہا کہ پاکستان میں عمران خان کے بغیر نہ کوئی جمہوری عمل مکمل ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی حکومت عمل میں آسکتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ۔ نواز (پی ایم ایل۔ این) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی )کے درمیان اقتدارکی تقسیم کے فارمولے پر گفت شنید کی خبروں پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پارٹی کے لیڈر لطیف کھوسہ نے اسے ایک مذاق قرار دیا کہ حریف جماعتیں ایسی تجویز پیش کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جیل میں قید ۷۱؍ سالہ سیاستداں (جو پہلے کرکٹر تھے) عمران خان کو واپس لانا ہی ہوگا۔ وہ کون ہیں جنہیں عوام نے مسترد کر دیا ہے۔ جو خود آپس میں بٹے ہوئے ہیں۔ عمران خان کے بغیر کوئی اسمبلی یا پارلیمنٹ نہیں چل سکتی، کوئی جمہوریت نہیں چل سکتی اور عمران خان کے بغیر کوئی حکومت نہیں بن سکتی۔ ڈان اخبار نے کھوسہ کے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے کہا کہ اپنی غلط فہمی کو دور کر لیں کہ وہ عمران خان کو نفی کرکے کوئی جمہوری عمل مکمل کر لیں گے یا حکومت بنا لیں گے۔ انہیں عمران خان کو واپس لانا ہی ہوگا۔
واضح رہے کہ ۸؍فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں عمران خان کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے ۲۶۶؍ ارکان کی قومی اسمبلی میں ۱۰۱؍ نشستیں حاصل کی تھیں۔ نواز شریف کی پی ایم ایل۔ این نے ۷۵؍ نشستیں اور سابق وزیر خارجہ کی پی پی پی نے ۵۴؍ نشستیں حاصل کی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ انتخابی نتائج فارم ۴۵؍ کے جاری ہونے تک درست تھے۔
فارم ۴۵؍ کے مطابق کم از کم ۱۷۰؍ نشستیں ہمارے امیدوار جیت رہے تھے۔ وہ آزادامیدوار نہیں ہیں کیونکہ پی ٹی آئی آئینی اور جمہوری حیثیت سے ایک سیاسی جماعت کا وجود رکھتی ہے۔ ہمیں آزاد کہنا غلط اور غیر قانونی ہے۔
عمومی طور پر فارم ۴۵؍ کو ’گنتی کا نتیجہ‘ کہا جاتا ہے۔ پاکستانی انتخابی عمل میں یہ ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے جس کا مقصد کسی خاص پولنگ مقام پر ووٹنگ کے نتائج کو ظاہری او ر دستاویزی شکل عطا کرتے ہوئےشفافیت اور جوابدہی کو برقرار رکھنا ہے۔ کھوسہ نے کہا کہ اگر مختص نشستیں بھی شامل کرلی جائیں تو پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں ۲۰۰؍ کا ہندسہ عبور کر جائے گی۔ انہوں نے کہا حکومت سازی کیلئے سب سے بڑی جماعت کو حق دیا جاتا ہے اور چونکہ ہماری جماعت سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے لہٰذا وہ وزیر اعظم ہوں گے۔ انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔
دریں اثنا، ۸؍ فروری کوہونے والے عام انتخابات میں جس پر دھاندلی کے الزامات لگے ہیں، ۲۶۶؍ قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے پاکستان تحریک انصاف پارٹی کے حمایت یافتہ ۱۰۱؍ آزاد امیدواروں کی کامیابی کے بعد پارٹی مرکز، پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں حکومت سازی کیلئے حکمت عملی بنا رہی ہے۔
پارٹی کے اندرونی انتخاب کے تنازع کے سبب پی ٹی آئی نے ’’بلہ‘‘ کا نشان کھو دیا تھا جس کی وجہ سے پارٹی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے آزاد امیدوار کےطور پر انتخاب میں حصہ لیا۔ پارٹی کے مطابق پی ٹی آئی کو ۱۷۰؍ قومی اسمبلی کی نشستوں پر برتری حاصل ہو گئی تھی لیکن بعد میں مبینہ طور دھاندلی کرتےہوئے پینڈولم کو پاکستان مسلم لیگ۔ نواز کے حق میں گھما دیا گیا۔
خیال رہے کہ کل۱۲؍ کروڑ ۹۰؍ لاکھ رائےدہندگان میں سے تقریباً ۶؍ کروڑ یا تقریباً ۴۷؍ فیصدرائےدہندگان نے نئی حکومت کیلئے جمعرات کو اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا تاکہ پاکستان کو معاشی بحران سے نکالا جا سکے۔