جب پنٹاگون کے آس پاس رات گئے پیزا آرڈرس میں اچانک اضافہ ہو جائے تو سمجھ لیں کہ دنیامیں کوئی بڑی فوجی ہلچل یقینی ہے۔
EPAPER
Updated: June 23, 2025, 1:57 PM IST | Agency | Washington
جب پنٹاگون کے آس پاس رات گئے پیزا آرڈرس میں اچانک اضافہ ہو جائے تو سمجھ لیں کہ دنیامیں کوئی بڑی فوجی ہلچل یقینی ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت کا مرکز، جہاں ہر لمحہ حساس فیصلے کئے جاتے ہیں، جہاں جنگ و امن کی حکمت عملی ترتیب دی جاتی ہے، جہاں دنیا کے طاقتور ترین جنرل، وزیر، خفیہ ایجنسیوں کے سربراہ اور صدر کے مشیر جمع ہوتے ہیں وہاں پیزا کے ڈبوں کا کیا کام؟ یہ سوال سننے میں جتنا غیر سنجیدہ لگتا ہے، حقیقت میں اتنا ہی غیر معمولی ہے کیونکہ حالیہ دنوں میں پنٹاگون سے جُڑی ایک عجیب و غریب لیکن حیرت انگیز حد تک باخبر تھیوری نے سوشل میڈیا پر تہلکہ مچا دیا ہے جو ہے ’پنٹاگون پیزا تھیوری‘۔ کہا جاتا ہے کہ جب پنٹاگون کے آس پاس رات گئے پیزا آرڈرس میں اچانک اضافہ ہو جائے، تو یہ اشارہ ہے کہ دنیا کسی بڑے جغرافیائی یا فوجی ہلچل کی دہلیز پر کھڑی ہے۔ چاہے وہ جنگ ہو، فضائی حملہ، خفیہ مشن، یا کوئی ایسا بحران جس کے اثرات عالمی سطح پر محسوس کئے جائیں۔ پیزا کا آرڈر اس کا پہلا غیر اعلانیہ اعلان بن جاتا ہے۔
یہ نظریہ دوبارہ اس وقت خبروں میں آیا جب ۱۲؍ جون کو ’پٹناگون پیزا رپورٹ‘نامی ایک ایکس اکاؤنٹ نے ارلنگٹن، ورجینیا میں واقع پنٹاگون کے قریب واقع پیزا شاپس کی غیر معمولی سرگرمی رپورٹ کی۔ بتایا گیا کہ شام ۶؍ بج کر ۵۹؍منٹ پر چار مختلف پیزا مراکز’ وی دی پیزا‘، ’ ڈومینوز ‘، ’ڈسٹرکٹ پیزا پیلس‘ اور ’ ایکسٹریم پیزا ‘ میں آرڈرز کا رش لگ گیا۔ صرف دس منٹ بعد آرڈرس میں یکایک کمی آگئی اور ایک گھنٹے کے اندر ایرانی ریاستی ٹی وی نے تہران میں زور دار دھماکوں کی تصدیق کر دی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اسرائیل نے ایران میں `آپریشن رائزنگ لائن کے تحت اہم فوجی اور ایٹمی تنصیبات پر فضائی حملے کردئیے ہیں۔ اگرچہ امریکہ نے ان حملوں میں اپنی شمولیت سے انکار کیا اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے وضاحت دی کہ امریکہ کا ان حملوں سے کوئی تعلق نہیں ہےلیکن سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اعتراف کیا کہ وہ ان حملوں سے آگاہ تھے۔ ان کے بقول ’’ہم سب کچھ جانتے تھے۔ میں نے ایران کو ذلت اور تباہی سے بچانے کی پوری کوشش کی۔ ‘‘
اس واقعے نے نہ صرف اس تھیوری کو تقویت دی بلکہ دنیا بھر کے صحافیوں، محققین اور تجزیہ کاروں کی توجہ ایک بار پھر اس جانب مبذول کروا دی کہ کیا واقعی پنٹاگون کے آس پاس پیزا کی غیر معمولی کھپت عالمی ہنگاموں کی پیش گوئی بن چکی ہے؟ اس نظریے کا پس منظر بھی دلچسپ ہے۔ یہ پہلی بار سامنے نہیں آیا۔ ۱۹۸۹ء میں پناما پر امریکی حملے سے قبل، ۱۹۹۱ء میں خلیجی جنگ (آپریشن ڈیزرٹ اسٹورم) کے دوران اور۲۰۱۱ء میں القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن’ نیپچون اسپیئر‘ کے موقع پر بھی پیزا آرڈرس میں نمایاں اضافہ رپورٹ ہوا تھا۔ اس وقت کے مشہور پیزا بزنس مین فرینک میکس نے بتایا تھا کہ یکم اگست۱۹۹۰ء کی رات سی آئی اے کے دفتر نے ریکارڈ ۲۱؍ پیزا منگوائے تھے۔ اگلے ہی دن صدام حسین نے کویت پر حملہ کر دیا۔ یہاں تک کہ سوویت یونین کے دور میں روسی انٹیلی جنس نے اس رجحان کے لئے باقاعدہ ’پزِنٹ ‘ کی اصطلاح گھڑ لی تھی یعنی پیزا انٹیلی جنس۔
اس کی منطق سادہ ہے جب حساس دفاتر میں رات گئے غیر معمولی سرگرمی ہو، جب حکام و افسران کسی اہم فیصلے یا آپریشن کی تیاری میں مصروف ہوں، تو کھانے کے لیے آسان، جلدی بننے والی اور دیر تک چلنے والی خوراک کی ضرورت پڑتی ہے اور اس کا پہلا انتخاب ہوتا ہے پیزا۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ جو معلومات سیٹیلائٹ، خفیہ کیمرے اور جاسوس بھی بروقت نہیں دے پاتے، وہ بعض اوقات ڈومینوز کی ایک رسید دے دیتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پنٹاگون کے اندر درجنوں فوڈ اسٹالز اور ریستوراں ہیں، مگر پیزا دستیاب نہیں۔ لہٰذا جب رات گئے پیزا کی شاپس پر آرڈرس بڑھنے لگیں تو اس کا مطلب ہے کہ اندر کچھ بڑا پک رہا ہے۔ یقیناً یہ تھیوری اپنے اندر طنز، تجسس اور غیر رسمی تجزیے کا پہلو رکھتی ہے۔ کوئی سنجیدہ انٹیلی جنس ادارہ اسے بطور واحد ذریعہ نہیں اپنائے گا لیکن جیسا کہ سی این این کے معروف صحافی وولف بلیٹزر نے کہا تھاکہ’’ صحافیوں کے لئے اہم سبق یہ ہے کہ خبروں پر نہیں، پیزا پر نظر رکھو۔ ‘‘تو اگلی بار جب دنیا کی سانسیں روکنے والی کسی بڑی خبر سے قبل واشنگٹن میں پیزا کی دکانوں پر غیر معمولی رش لگے، تو خبر رساں ادارے، تجزیہ کار اور شاید ہم سب خبروں سے پہلے پیزا پر توجہ دیں۔