نومنتخب شدہ ایم ایل اے ثنا ملک کی کئی مسائل کو حل کرنے کیلئے پہلے ہی کام شروع کرنے کی یقین دہانی، خواتین کی ترقی کیلئے پُرعزم ہونے کا دعویٰ۔
EPAPER
Updated: November 30, 2024, 12:58 PM IST | Shahab Ansari | Mumbai
نومنتخب شدہ ایم ایل اے ثنا ملک کی کئی مسائل کو حل کرنے کیلئے پہلے ہی کام شروع کرنے کی یقین دہانی، خواتین کی ترقی کیلئے پُرعزم ہونے کا دعویٰ۔
برسر اقتدار مہایوتی کے اتحاد والی این سی پی (اجیت پوار) سے انو شکتی نگر میں امیدوار ثناء ملک کو ۴۹؍ہزار ۳۴۱؍ ووٹ ملے اور وہ مہاوکاس اگھاڑی سے کانگریس کے امید وار فہد احمد سے ۳؍ہزار ۳۷۸؍ ووٹوں سے آگے بڑھتے ہوئے جیت گئیں۔انو شکتی نگر میں گھنی مسلم آبادی والا چیتا کیمپ علاقہ بھی شامل ہے جو جنوب وسطی ممبئی کا آخری کنارہ کہا جاسکتا ہے اور یہاں مسائل بھی کافی زیادہ ہیں۔
یہاں رہائش پذیر جمال سنجر سے جب مقامی مسائل پر بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ یہاں جنوبی ہند کے باشندوں کی تعداد زیادہ ہے جو تعلیم کو اولین ترجیح دیتے ہیں لیکن ان کی تعلیمی ضرورتوں کو ان کی منشاء کے مطابق پورا کرنے والے تعلیمی اداروں کی کمی ہے۔اس علاقے میں غریب اور متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد بہت ہے اس لئے یہاں اچھے سرکاری اسکول اور ڈگری کالج کی ضرورت ہے تاکہ تعلیم ادھوری چھوڑنے کا تناسب کم ہوسکے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہاں کوئی جنرل اسپتال نہیں ہے۔ ایک میٹرنیٹی ہوم ہے لیکن اس میں بھی این آئی سی یو اور نوزائیدہ بچوں کے علاج کیلئے ’اِنکیوبیٹر‘ نہیں ہیں اس لئے اکثر یہاں جانے والے مریضوں کو سائن اسپتال بھیج دیا جاتا ہے جو یہاں سے کافی دور ہے۔
یہ بھی پڑھئے:نالا سوپارہ میں ۷؍بلڈنگوں کے انہدام سے مکین پریشان
ایک دیگر شخص نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’’ویسے تو یہاں مسائل کا انبار ہے لیکن میں ایک ہی مسئلہ پر گفتگو کروں گا اور وہ یہ کہ ہمارے یہاں ۵؍ ہزار مربع فٹ کی خالی جگہ کو تعلیمی ادارہ قائم کرنے کیلئے مختص کیا گیا تھا لیکن اس پر ’سوویدھا کیندر‘ اور عوامی بیت الخلاء بنا دیا گیا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس جگہ پر اچھا تعلیمی ادارہ بننا چاہئے جہاں مقامی غرباء اور متوسط طبقہ کے بچے تعلیم حاصل کرسکیں۔‘‘
چیتا کیمپ میں ہی رہائش پذیر سماجی کارکن احمد علی نے گفتگو کے دوران کہا کہ ’’ہمارے یہاں گندگی، پانی، صحت اور سڑک وغیرہ ہر طرح کے مسئلے برسوںسے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’اگر یہاں کوئی حادثہ کا شکار ہوجائے تو ایسا کوئی اسپتال نہیں ہے کہ ’گولڈن آور‘ (کسی کی جان بچانے کیلئے ابتدائی قیمتی وقت) میں طبی امداد پہنچائی جاسکے۔ مقامی میٹرنیٹی ہوم میں اس کا علاج ہو نہیں سکتا اور شتابدی اسپتال بھی اتنا دور ہے کہ وہاں پہنچنے میں زخمی کی جان جاسکتی ہے۔‘‘ ان کے مطابق یہاں واقع میٹرنیٹی ہوم کی حالت بھی اچھی نہیں ہے کبھی مشینیں کام نہیں کرتیں تو کبھی ڈاکٹر موجود نہیں ہوتے اس لئے اکثر مریضوں کو دیگر اسپتال میں جانا پڑتاہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ یہاں واقع اہم سڑکیں ایم جی روڈ اور گنیش کیرتی روڈ جو کہ لنک روڈ ہے انہیں چوڑا کرنے کے بجائے مزید تنگ کردیا گیا ہے۔
جب ثناء ملک سے متذکرہ مسائل پر گفتگو کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ’’اپنے حلقہ انتخاب کے مسائل کو حل کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرنا میرا مقصد ہے لیکن خواتین کی ترقی میری اولین ترجیح ہوگی۔ میرا ارادہ ہے کہ خواتین کیلئے ایسے کورسیز کا انتظام کروں جن سے وہ مختلف ہنر سیکھیں اور اپنی رہائش گاہوں پر ہی روزگار حاصل کرسکیں۔‘‘
تعلیمی اداروں کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ یہاں کئی اسکولیں ہیں اور ان میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے پر محنت کی جائے گی اور مزید ۲؍ سے ۳؍ بی ایم سی اسکول شروع کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ڈگری کالج کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ ایک اسکول نے کالج شروع کرنے کیلئے درخواست دی ہے تو میں ان کی مدد کروں گی تاکہ اس میں ڈگری کالج شروع ہوسکے۔ اسپتال کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ شتابدی اسپتال انوشکتی نگر حلقہ انتخاب میں ہی آتا ہے اور ان کے والد کی کوششوں سے جلد ہی یہ ۵۰۰؍ بیڈ کا ملٹی اسپیشلٹی اسپتال بن جائے گا اور اس میں میڈیکل کالج شروع کرنے کی بھی تیاری ہے۔ ان کے علاوہ چیتا کیمپ اور شیواجی نگر میں ’پیری فیری اسپتال‘ شروع کرنے کیلئے کوشش جاری ہے۔ مذکورہ سڑکوں پر ایک طرف ’فلش ڈرین‘ بنایا گیا ہے تاکہ اس پر قبضہ نہ ہو اور سڑکیں تنگ نہ ہوں۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ ان کے انتخابی منشور میں جو بھی وعدے ہیں ان تمام کوپورا کیا جائیگا جن سے عوام کی شکایتیں دور ہوں گی۔