Inquilab Logo

پیرو کی سائیکولوجسٹ اینا ایسترادہ کی یوتھنیشیا سے موت

Updated: April 24, 2024, 4:54 PM IST | Lima

پیرو کی سائیکولوجسٹ اینا ایسترادہ یوتھنیشیا کے ذریعے موت کا حق حاصل کرنے والی پہلی شخص بن گئی ہیں۔وہ پولی مائے ٹوسیس نامی لاعلاج مرض سے جوجھ رہی تھیں اور گزشتہ کئی سال سے بستر پر تھیں۔ اینا کی وکیل نے اپنے بیان میں کہا کہ اینا کی اس جدوجہد سے پیروکے سیکڑوں باشندوں کو اپنے اس حق اور اس کے دفاع کی حقیقت کا علم ہوا ہے۔ اینا نے ایک بلاگ بھی بنایا ہے جس میں انہوں نے اپنی اس جدوجہد کا ذکر کیاہے۔

Anna Estrada Image: X
اینا ایسترادہ۔ تصویر: ایکس

پیرو کی ایک سائیکولوجسٹ، جو ایک لاعلاج مرض کا سامنا کر رہی تھیں جس کے سبب پٹھے کمزور ہو جاتے ہیں اور گزشتہ کئی برس سے بستر پر تھیں، کی یوتھنیشیا کے سبب موت ہوئی ہے۔ ان کے وکیل نے ان کی موت کی اطلاع دی ہے۔ خیال رہے کہ وہ پیرو میں طبی امداد کی مدد سے موت کا حق حاصل کرنے والی پہلی شخص بن گئی ہیں۔ 
خیال رہے کہ یوتھنیشیا ایسے عمل کو کہتے ہیںجس میں مریض کی تکلیف اور درد کو ختم کرنے کیلئے اسے اپنی زندگی ختم کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔اینا ایسترادہ گزشتہ کئی برس سے موت کا حق حاصل کرنے کیلئے پیرو کی عدالتوں میں لڑ رہی تھیں اور وہ پیرو میں ، جہاں یوتھنیشیا اور خودکشی میں معاونت کو غیر قانونی قراردیا گیا ہے، یوتھنیشیا کا حق حاصل کرنے والی پہلی شخص بن گئی ہیں۔

 ۲۰۲۲ء میں ایسترادہ کو ملک کی سپریم کورٹ کی جانب سے منظوری دے دی گئی تھی، جس نے نچلی عدالت کے اس فیصلے کو برقرار رکھا تھا جس نے ایسترادہ کو یہ حق دیا تھا کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ انہیں اپنی زندگی کب ختم کرنی ہےاور کہا تھا کہ جس نے بھی ان کی مدد کی اسے سزا نہیں دی جائے گی۔
ایسترادہ اس طرح ملک کی پہلی ایسی شخص بن گئی ہیں جنہیں طبی امداد کے ذریعے مرنے کا حق دیا گیا ہے۔ ان کی وکیل جوزفینا میرو کوئساڈا نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اینا کی شناخت والی موت کے  اپنے حق کو حاصل کرنے کی جدوجہد سے پیروکے سیکڑوں باشندوں کو اپنے اس حق اور اس کے دفاع کی حقیقت کا علم ہوا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: جمائیکا نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کی

ان کی اس جدوجہد نے ہمارے ملک کی سرحدوں کو برتری بخشی ہے۔ ایسترادہ، جن کی عمر ۴۷؍ تھی، ’’پولی مائے ٹوسیس‘‘ نامی لاعلاج مرض سے جوجھ رہی تھیں جو پٹھوں کو تباہ کردیتا ہے۔اس مرض کی پہلی علامت اس وقت نمایاں ہوئی تھیں جب وہ کم عمر تھیں اور ۲۰؍ سال کی عمر سے انہوں نے وہیل چیئر کا استعمال شروع کیا تھا کیونکہ انہوں نے چلنے کی ہمت کھو دی تھی۔
 ایسترادہ نے سائیکولوجی کی ڈگری حاصل کی تھی اور تھیراپسٹ بنی تھیں۔انہوں نے اتنے پیسے کمائے تھے کہ  خود کا اپارٹمنٹ خریدا تھا اور بااختیار بن گئی تھیں۔ 

۲۰۱۷ء میں ایسترادہ کی طبیعت میں زیادہ خرابی پیدا ہونے لگی تھی اور انہوں نے اپنے بستر سے اٹھنے کی ہمت کھودی تھی۔ انہیں سانس لینے میں تکلیف ہو رہی تھی اور وہ نمونیا کا شکار بھی ہو گئی تھی۔ وہ ٹائپ نہیں کر سکتی تھی پھر بھی اپنے بلاگ ’’اینا فار آف ڈیتھ وتھ ڈگنٹی‘‘ کو پروڈیوس کرنے کیلئے ٹرانسکرپشن کا استعمال کرتی تھیں۔ انہوں نے اپنے بلاگ میں یوتھنیشیا حاصل کرنے کیلئے اپنی جدوجہد کا ذکر کیا ہے۔ 
۲۰۱۸ء میں اینا نے اسوشی ایٹ پریس کے ساتھ اپنے انٹرویومیں بتایا تھا کہ ’’میں مزید آزاد نہیں رہ گئی اور میری شخصیت اب وہ نہیں ہے جو پہلی تھی۔‘‘پیروکے انسانی حقوق کے محتسب کی مدد سے انہوں نے مقدمہ جیتا تھا جس کے ذریعے انہیں یوتھنیشیا کی مدد سے موت کا حق حاصل ہوا ۔اینا اپنے بستر پر ہی ویڈیو کانفرنس کے ذریعے کورٹ کی کارروائیوں میں حصہ لیتی تھیں۔
انہوں نے ۲۰۲۲ء میں عدالت کے ججوں سے کہاتھا کہ انہیں اپنی زندگی کی قدر ہے اور فوری طور پر مرنا نہیں چاہتی ہیں۔لیکن وہ یہ آزادی چاہتی ہے کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ انہیں اپنی زندگی کب ختم کرنی ہے۔انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’’جب زندگی کی مشکلات کو میں زیادہ برداشت نہ کر سکوں تو میں یوتھنیشیا کا استعمال کرنے کی آزادی چاہتی ہوں۔‘‘ 
خیال رہے کہ دنیامیں کچھ ممالک میں یوتھنیشیا کو قانونی قرار دیا گیا ہے جبکہ متعدد ممالک میں یوتھنیشیا اب بھی غیر قانونی ہے۔جن ممالک میں یوتھنیشیا کو قانونی قرار دیا گیاہے ان میں کنیڈا، بلجیئم ، اسپین دیگر ممالک قابل ذکر ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK