اداکار پرکاش راج نے عمر خالد اور دیگر کی ضمانت کی نامنظوری کو انصاف کا مذاق قرار دیا، جبکہ عمر خالد کی والدہ کا کہنا ہے کہ انہیں اب بھی اپنے بیٹے کی بے گناہی پر یقین ہے، ساتھ ہی سپریم کورٹ میں لڑنے کے عزم کا اظہار کیا۔
EPAPER
Updated: September 04, 2025, 10:10 AM IST | New Delhi
اداکار پرکاش راج نے عمر خالد اور دیگر کی ضمانت کی نامنظوری کو انصاف کا مذاق قرار دیا، جبکہ عمر خالد کی والدہ کا کہنا ہے کہ انہیں اب بھی اپنے بیٹے کی بے گناہی پر یقین ہے، ساتھ ہی سپریم کورٹ میں لڑنے کے عزم کا اظہار کیا۔
دہلی ہائی کورٹ کی جانب سے پیر کو طلبہ لیڈر عمر خالد، شَرجیل امام اور آٹھ دیگر کی ضمانت کی درخواست مسترد کیے جانے پر کارکنان، ملزمان کے اہل خانہ اور شہری حقوق کے حامیوں میں شدید مایوسی اور غم و غصہ پایا جارہا ہے۔جسٹس نوین چاولا اور جسٹس شیلِندر کور کی بینچ نے۲۰۲۰ء کے دہلی فسادات کی سازش معاملے میں ملزمان کے خلاف فیصلہ سنایا۔اداکار اور کارکن پرکاش راج نے اس فیصلے کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ سوشل میڈیا پر لکھتے ہوئے انہوں نے کہا’’قابلِ افسوس، ناانصافی، سمجھوتہ، انصاف کا مذاق، تاریخ اسے کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ہمیں اس ناانصافی کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھنی ہوگی اور عمر خالد اور تمام سیاسی قیدیوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔‘‘
فیصلے کے بعد نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے عمر خالد کی والدہ نے درد اور عزم دونوں کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا، ’’میرا بیٹا پانچ سال سے جیل میں ہے، پھر بھی میں مانتی ہوں کہ وہ بے گناہ ہے اور ایک دن رہا ہو جائے گا۔ اب ہم سپریم کورٹ جائیں گے اور وہاں انصاف کا مطالبہ کریں گے۔‘‘ان کے الفاظ ایک مسلم خاندان کی اُس اذیت کی عکاسی کرتے ہیں جو گزشتہ پانچ سال سے قانونی جنگ لڑرہا ہے۔واضح رہے کہ یہ مقدمہ ۲۰۲۰ء کے دہلی فساد کے بعد پیدا ہوا، جو شہریت (ترمیمی) قانون (سی اے اے) اور شہریوں کے قومی رجسٹر (این آر سی) کے خلاف احتجاج کے بعد ہوا تھا۔ مسلمانوں کے بڑے حصے نے ان قوانین کی مخالفت کی، ان کا کہنا تھا کہ یہ امتیازی سلوک پر مبنی ہیں اور ان کی شہریت کے حقوق کو خطرہ ہے۔عمر خالد اور شرجیل امام سمیت طلبہ لیڈروں نے مظاہرے منظم کرنے اور ان قوانین کی مخالفت میں فعال کردار ادا کیا۔ اس دوران دہلی کے بعض حصوں میں فسادات بھڑک اٹھے۔ پولیس نے خالد، امام اور دیگر پر سازش کرنے کا الزام لگایا، حالانکہ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہیہ الزامات سیاست زدہ ہیں۔تمام ملزمان اپنی گرفتاری کے بعد سے ہی جیل میں ہیں، جن کی بار بار ضمانت کی درخواستیں غیر قانونی سرگرمی (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت مسترد کی گئی ہیں،یہ ایسا قانون ہے جس میں ضمانت حاصل کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔مقامی مسلم لیڈروں نے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے ناانصافی اور امتیازی قرار دیا ہے۔
حقوق کی تنظیموں کا یہ کہنا ہے کہ فسادات کے دوران ہندو ہجوم کی جانب سے تشدد سے متعلق کئی مقدمات میں کوئی پیش رفت نہی ہوئی، جبکہ مسلم کارکن بغیر مقدمہ چلائے جیل میں ہیں۔عمر خالد کے خاندان اور قانونی ٹیم نے تصدیق کی ہے کہ وہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ حامیوں کا خیال ہے کہ صرف سپریم کورٹ ہی اس سنگین ناانصافی کو درست کر سکتی ہے۔یہ مقدمہ مسلم معاشرےکی گہری تشویش کو اجاگر کرتا رہتا ہے جو محسوس کرتی ہے کہ اس کی آواز کو منظم طریقے سے نشانہ بنایا جا رہا ہے اور خاموش کیا جا رہا ہے۔