• Mon, 15 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

عرب ملکوں کے نیٹو جیسے فوجی اتحاد کی تجویز

Updated: September 15, 2025, 11:03 AM IST | Agency | Doha

او آئی سی اور عرب لیگ کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ قطر پہنچ گئے، ایران کے اس انتباہ کے بعد کہ اسرائیل کا اگلا نشانہ سعودی اور ترکی ہوسکتے ہیں، میٹنگ کی اہمیت بڑھ گئی۔

Qatari Prime Minister Sheikh Mohammed bin Abdulrahman bin Jassim Al Thani has spoken of a "collective response" to Israel. Photo: INN
قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبد الرحمن بن جاسم الثاني اسرائیل کیلئے’’اجتماعی جواب‘‘ کی بات کہی ہے۔ تصویر: آئی این این

 قطر  پر گزشتہ ہفتے کے اسرائیلی حملے کے بعد  عرب ممالک چوکنا ہوگئے ہیں۔  اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں حملے کی مذمت  اور ٹرمپ کی اس یقین دہانی کے باوجود کہ ’’آئندہ ایسا نہیں ہوگا‘‘، ایران نے متنبہ کیا ہے کہ اسرائیل کا اگلا نشانہ سعودی عرب اور ترکی ہوسکتے ہیں۔اس بیچ قطر اپنے اس موقف پر قائم ہےکہ حماس کے لیڈروں کو نشانہ بنانے کیلئے اس کی سرزمین پر کیاگیا اسرائیلی حملہ دوحہ کی خود مختاری پر حملہ ہے اور دوحہ اس کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ صورتحال کا جائزہ لینے اور آئندہ کی حکمت عملی طے کرنے کیلئے قطر نے دوحہ میں  ۲۲؍ رکنی عرب لیگ اور۵۷؍ رکنی  اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے۔ یہ اجلاس پیر کو ہوگا جس کیلئے   دونوں تنظیموں کے رکن ممالک  کے وزرائے خارجہ دوحہ پہنچنے لگے ہیں۔ اجلاس میں اسرائیل کے خلاف انتہائی سخت قرار داد کے ساتھ ہی عرب ممالک کے تحفظ کے حوالے سے منصوبوں پر غور کئے جانے کا امکان ہے۔ 
 سعودی اور ترکی  پر حملے کا اسرائیلی منصوبہ بے نقاب
 ایران کے پاسداران انقلاب کے سابق سربراہ محسن رضائی نے  پیر کو ہونےوالی میٹنگ سے قبل عرب اور اسلامی مماک کو  آگاہ کیا ہے کہ ایک ایک کرکے نشانہ بننے سے بہتر ہے کہ مسلم ملک متحد ہوجائیں اور   اسرائیل کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے  فوجی اتحاد قائم کریں۔  اس بیچ ایرانی میڈیا  نے اسرائیل کے منصوبوں کو بے نقاب کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے خبر دی ہے کہ  تل ابیب ترکی اور سعودی عرب کو نشانہ بنانے کی تیاری کررہاہے۔ اہم بات یہ ہے کہ دونوں امریکہ کے اتحادی ہیں۔ ترکی پر حملہ تباہ کن ثابت ہوسکتاہے کیوں کہ یہ ملک نیٹوفوجی اتحاد کا حصہ ہے۔  امریکہ کی قیادت والے اس اتحاد کے کسی بھی ملک پر حملہ تمام ممالک   پر حملہ تصور کیا جاتاہے اور پورا اتحاد نشانہ بنائے گئے ملک کے دفاع کیلئے پابند عہد  ہے۔ نیٹو میں اس وقت امریکہ ، برطانیہ، کنیڈا، جرمنی، فرانس اور اٹلی سمیت  ۳۲؍ ممالک ہیں  ۔ سنیچر کو  ایران کے سیکوریٹی چیف علی لاریجانی نے بھی قطر پر حملے کو اسلامی ملکوں کیلئے وارننگ قراردیتے ہوئے عرب اور مسلم ممالک  کو مشورہ دیا ہے کہ انہیں ’’اسرائیل کے پاگل پن‘‘ کے خلاف محض بیان بازی اور مذمتی قراردادوں  تک محدود رہنے کے بجائے ’’مشترکہ آپریشن روم‘‘ قائم کرلینا چاہئے۔
عرب ممالک کے نیٹوجیسے اتحاد کی تجویز
  قطر جو خطے میں امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی ہے اور غزہ جنگ میں ثالثی کررہاہے، پر حماس کے لیڈروں کو نشانہ بنانے کے نام پر اسرائیل کی جانب سے گزشتہ ہفتے کئے گئے حملے  نے عرب ممالک  کے فوجی اتحاد کی بازگشت پھر تیز کردی ہے۔ ’ دی نیشنل‘کی ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۵ء میں پہلی بار پیش کی گئی اس تجویز کو مصر  نےپھر پیش کیا ہے جس پر عرب ممالک سنجیدگی  سے غور کررہے ہیں۔ یاد رہے کہ مصر نے ہی ۲۰۱۵ء میں بھی شرم الشیخ میں  ہونے والے عرب  چوٹی کانفرنس  میں یہ تجویز پیش کی تھی۔ میٹنگ میں تمام ممالک اصولی طو رپر اس پر متفق بھی ہوگئے تھے مگر بعد کی میٹنگوں میں اس پر کوئی  پیش رفت نہیں ہوئی اور یہ معاملہ کھٹائی میں چلا گیا۔  اُس وقت یہ تجویز  یمن کے بڑے حصے پر حوثی باغیوں کے قبضہ کے ردعمل  کے  طور پر پیش کی گئی تھی تاہم یمن میں باغیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے بعد میں سعودی عرب کی قیادت میں فوجی اتحاد قائم کرلیا گیاتھا۔  تازہ اطلاعات کے مطابق قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد فوجی اتحاد کی تجویز کو دہراتے ہوئے مصر نے پیشکش کی ہے کہ مشترکہ فوج کا ہیڈ کوارٹرز قاہرہ میں ہو۔ واضح رہے کہ عرب ممالک میں مصر ایسا ملک ہے جس کے پاس سب سے بڑی فوج ہے۔
اسرائیل کے حامیوں کو تیل کی سپلائی بند کرنے کی تجویز!
  پیر کو ہونےوالے عرب لیگ اور او آئی سی کے مشترکہ اجلاس میں قطر  پر اسرائیلی حملے کے جواب کے متبادلات پر غور کیا جائےگا۔یاد رہے کہ قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبد الرحمن بن جاسم الثاني، جنہوں نے جمعہ کو نیویارک میں ٹرمپ سے ملاقات کی،  نے کہا ہے کہ قطر اسرائیلی حملے ’’اجتماعی جواب‘‘ پر غور کریگا کیوں کہ اس حملے نے پورے عرب خطے کی سلامتی پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔  غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق پیر کو دوحہ میں  ہونے والی   میٹنگ میں  اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کرلینے اور ان ممالک کو  جو اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں، ایندھن کی سپلائی روک دینے پر بھی غور کیا جاسکتاہے۔ واضح رہے کہ مصر، اردن، متحدہ عرب امارات، بحرین،  سوڈان  اور مراکش  وہ عرب ممالک ہیں جو اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں اوران کے اس صہیونی ریاست سے سفارتی تعلقات ہیں۔
میٹنگ میں کون کون شریک ہوگا؟
  اتوار کی شام تک یہ دوحہ اجلاس کے شرکاء کی فہرست جاری نہیں کی گئی ہے تاہم ایران کے صدر محمود پیزشکیان ،پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف  اور ملائشیا کے وزیراعظم انورابراہیم کی  شرکت یقینی ہے۔ ترکی کی جانب سے خارجہ سیکریٹری حاقان فیدان عرب لیگ- او آئی سی اجلاس میں اپنے ملک کی نمائندگی کریں گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK