Inquilab Logo Happiest Places to Work

نجی کیب سروسیز کیلئے ٹیکس قوانین میں یکسانیت کی تجویز زیر غور

Updated: June 18, 2025, 11:14 AM IST | Agency | New Delhi

کمیشن ماڈل اور ایس اے اے ایس ماڈل میں عدم مساوات کی وجہ سے مارکیٹ میں کرایوں میں فرق دیکھنے کو مل رہا ہے۔ انڈسٹری کا کہنا ہے کہ دونوں ماڈلز ایک ہی سروس فراہم کرتے ہیں، مگر مختلف ٹیکس کی وجہ سے کمیشن ماڈلز مہنگے پڑ رہے ہیں۔ حکومت جی ایس ٹی میں کمی کرتی ہے تو اس سے مسافروں کو فائدہ ہونے کا امکان۔

Firstly, fares may be lower for passengers using private services like Uber. Photo: INN
اولا،اُوبرجیسی پرائیویٹ سروسیز استعمال کرنے والے مسافروں کیلئے کرایہ کم ہوسکتا ہے۔ تصویر: آئی این این

مرکزی حکومت کی جانب سے ’کیب ایگریگیٹر ایپس‘ کے لئے گڈز اینڈ سروسیز ٹیکس (جی ایس ٹی) کے اصولوں کو واضح کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ’سی این بی سی ٹی وی۱۸‘ نے ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ مختلف بزنس ماڈلز، جیسے کہ کمیشن پر مبنی اور سافٹ ویئر اَیز اے سروس(ایس اے اے ایس) ماڈل، کے باعث ٹیکس کے قوانین میں فرق پایا جاتاہے۔ سینٹرل بورڈ آف اِ ن ڈرائریکٹ ٹیکسیز اینڈ کسٹمز، متعلقہ انڈسٹری سے موصول تجاویز کا جائزہ لے رہا ہے اور جلد ہی اس مسئلے کو جی ایس ٹی کونسل کے سامنے پیش کرسکتا ہے۔ کرناٹک ہائی کورٹ نے سی بی آئی سی کو ہدایت دی ہے کہ وہ اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کرے اور سفارشات پیش کرے۔ 
کمیشن اور ایس اے اےایس ماڈل میں فرق
-کمیشن ماڈل:اوبر اور اولا جیسے پلیٹ فارمز ہر سواری پر۵؍ فیصد (بغیر ان پٹ ٹیکس کریڈٹ) یا۱۲؍ فیصد (ان پٹ ٹیکس کریڈٹ کے ساتھ) جی ایس ٹی وصول کرتے ہیں ۔ یہ ٹیکس مسافروں سے لیا جاتا ہے اور ایپس کی طرف سے جمع کیا جاتا ہے۔ 
-ایس اے اے ایس ماڈل:’نَمّایاتری‘ اور ’ریپیڈو‘ جیسے پلیٹ فارم ڈرائیوروں سے روزانہ یا ماہانہ سبسکرپشن فیس لیتے ہیں ، جس پر۱۸؍ فیصد جی ایس ٹی لاگو ہوتا ہے۔ لیکن مسافروں سے سفر کے لئے کوئی جی ایس ٹی نہیں لیا جاتا۔ 
مسئلہ کیا ہے؟
 اس عدم مساوات کی وجہ سے مارکیٹ میں کرایوں میں فرق دیکھنے کو مل رہا ہے۔ انڈسٹری کا کہنا ہے کہ دونوں ماڈلز ایک ہی خدمت (یعنی سواری کی سہولت) فراہم کرتے ہیں ، مگر مختلف ٹیکس کی وجہ سے کمیشن ماڈلز مہنگے پڑ رہے ہیں ۔ شعبہ صنعت کے ایک سینئر اہلکار نے کہا’’ایس اے اے ایس ماڈل کی سواری سستی ہے، لیکن یہ کارکردگی کی وجہ سے نہیں بلکہ ٹیکس میں فائدے کی وجہ سے ہے۔ ‘‘
قانونی الجھن کیا ہے؟
 سی جی ایس ٹی ایکٹ کی دفعہ۹(۵) کے تحت، مسافر ٹرانسپورٹ جیسی سروسیز پر ٹیکس ڈرائیور کے بجائے ای کامرس پلیٹ فارم کو ادا کرنا ہوتا ہے۔ مگر یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ’ایس اے اے ایس ماڈل‘ اس دائرے میں آتا ہے یا نہیں ، کیونکہ یہ پلیٹ فارم صرف ڈرائیور اور مسافر کو جوڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ کرناٹک اتھاریٹی فار ایڈوانس رولنگز نے’نَمّا یاتری‘ اور ملٹی ورس ٹیکنالوجیز(مائن)  کو دفعہ۹(۵)  کے دائرہ کار سے باہر قرار دیا، کیونکہ وہ صرف سافٹ ویئر فراہم کرتے ہیں ۔ لیکن اُوبر اور ریپڈو جیسے پلیٹ فارمز کو چونکہ وہ رائیڈ مینجمنٹ اور کسٹمر سروس میں فعال کردار ادا کرتے ہیں ، اسلئے انہیں ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ 
قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں ؟
 ڈے لائٹ انڈیا کے پارٹنر ایم ایس مانی نے کہا:’’ایک ہی سروس پر مختلف جی ایس ٹی ریٹ پیچیدگیاں پیدا کرتے ہیں ۔ صارفین کے لئے سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ‘‘ کے پی ایم جی انڈیا کے پارٹنر ابھیشیک جین نے کہا:’’جی ایس ٹی قوانین میں ابہام قانونی تنازعات کا سبب بن سکتا ہے۔ جی ایس ٹی کونسل کو اس پر واضح اصول یا ترمیم لانی چاہیے۔ ‘‘ 
ایس اے اے ایس ماڈل کی خامیاں 
 مذکورہ بالا ماڈل بظاہر سستا اور سادہ ہے، لیکن اس میں وہ سہولیات شامل نہیں ہوتیں جو اُوبر یا اولا فراہم کرتے ہیں ، جیسے کہ’ رائیڈ‘ کی نگرانی، شکایات کا ازالہ، یا سیکوریٹی چیک۔ انڈسٹری کا کہنا ہے کہ کاروباری ماڈل کا انتخاب ٹیکس کے فائدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ صارف کی ضروریات اور سروس کے معیار پر ہونا چاہیے۔ 
اب آگے کیا؟
 ملک میں ایپ پر مبنی ٹرانسپورٹ سروسز کی بڑھتی مانگ کے پیش نظر، یکساں ٹیکس قوانین کی ضرورت بڑھ رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق، جی ایس ٹی کونسل دفعہ۹(۵) میں ترمیم کر سکتی ہے یا ایس اے اے ایس اور کمیشن ماڈلز کے لیے واضح رہنما اصول جاری کر سکتی ہے۔ اس سے ٹیکس میں شفافیت آئے گی، سب کو برابر مواقع ملیں گے اور ریونیو کا نقصان رُکے گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK