`’وقف اور ہم‘ عنوان پر خصوصی نشست۔ مالونی، گوریگاؤں اور چارکوپ میں یکے بعد دیگرے متعدد مساجد کو مہاڈا کے ذریعے نوٹس دیا گیا۔ کسی بھی مسلک کی مسجد کو نوٹس ملنے پر مل جل کر آگے بڑھنے اور تعاون کرنےکا پیغام۔
EPAPER
Updated: September 24, 2025, 10:44 AM IST | Saeed Ahmad Khan | Malvani
`’وقف اور ہم‘ عنوان پر خصوصی نشست۔ مالونی، گوریگاؤں اور چارکوپ میں یکے بعد دیگرے متعدد مساجد کو مہاڈا کے ذریعے نوٹس دیا گیا۔ کسی بھی مسلک کی مسجد کو نوٹس ملنے پر مل جل کر آگے بڑھنے اور تعاون کرنےکا پیغام۔
مالونی، چارکوپ، گورے گاؤں اور کاندیولی وغیرہ میں مساجد کو مہاڈا کا نوٹس اور چار کوپ (کاندیولی) سیکٹر۲؍ میں نشیمن کالونی کی مسجد ابوبکر صدیق میں نماز بند کئے جانے کے علاوہ وقف املاک کے تحفظ اور وقف بورڈ کی کارکردگی وغیرہ مسائل پر منگل کو خصوصی مذاکرہ کیا گیا۔ بعد نماز مغرب بعد سویرا ہائٹس ، مسجد علی سے متصل مرچنٹ ہال مالونی گیٹ نمبر ۵؍ میں ذمہ داران اشخاص اور مختلف مسلک کے علماء ، ٹرسٹیان اور سماجی خدمت گاروں کی وقف بورڈ کے چیئرمین سمیر قاضی کے ہمراہ `’وقف اور ہم‘ عنوان پر خصوصی نشست ہوئی اور سوال وجواب کیا گیا۔ حالات کے سبب اور وقف ترمیمی سیاہ قوانین کی جاری مخالفت کے سبب وقف بورڈ کی جانب سے ازخود پولیس بندوبست کے لئے مالونی پولیس کو خط دیا گیا تھا۔واضح ہوکہ مہاراشٹر میں وقف کی ایک لاکھ ایکڑ سے زائد زمینیں ہیں اور بہت بڑی تعداد ان پر غاصبانہ قبضے ہیں۔
’’مسلک نہیں کام اور ضرورت پیش نظر ہو‘‘
تنظیم شہدائے کربلا کے ذمہ دار دانش نواز نے کہا کہ یہ اچھی بات ہے کہ سبھی مسلک کے علماء ایک پلیٹ فارم پر ہیں اور اس کا یقینا فائدہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملاڈ علاقے میں بہت سی وقف کی املاک ہیں ۔ میں نے انبوز واڑی میں قبرستان کی جگہ کے لئے گیٹ لگایا ہے مگر سیاست دانوں کے سبب وہ معلق ہے۔ اگر ہم سب متحد رہیں تویقیناً بڑا کام کیا جاسکتا ہے۔
شان الحسن سید نے اس خصوصی نشست کی غرض وغایت بتاتے ہوئے کہا کہ ایک نہیں کئی مساجد کو مہاڈا کے ذریعے نوٹس دیا اور کچھ مساجد کے حصے کو توڑا بھی گیا۔ انہوں نے مساجد کو نام بنام گنوایا اور بتایا کہ مہاڈا نے سنی مسجد کی بالائی منزل توڑ دی ، اسی طرح ایم ایچ بی کالونی کی مسجد عفان کو مہاڈا کا نوٹس دیا گیا مگر اسے وقف بورڈ میں رجسٹرڈ کرانے کے بعد ٹوٹنے سے بچالیا گیا۔ اسی طرح انجمن سنی جامع مسجد کو بی ایم سی نے نوٹس دیا۔ اسی طرح گوریگاؤں کی مسجد کا معاملہ ہے اور مہاڈا کے نوٹس اور مقامی ایم ایل اے یوگیش ساگر کے ایوان میں آواز بلند کرنے پر ۳؍ ماہ سے نماز بند ہے۔انہوں نے حاضرین سے یہ بھی کہا کہ’’ ذہننشین کرلیں کہ نہ نام مقصد ہے اور نہ یہاں سیاسی جماعت کا حوالہ ہے، بس اللہ ورسول کی رضا اور ملت کے مفاد کیلئے کام کرنا ہے، کوئی بھی آگے آئے ہم سب اس کے ساتھ ہیں ۔‘‘مولانا عبدالرشید نے کہا کہ ’’ہمارے بزرگوں نے بہت قیمتی جائیدادیں چھوڑی ہیں، اس کے تحفظ سے ہی ہم ایک ذمہ دار کے طور پر اپنا شمار کرواسکتے ہیں۔ اس کیلئے سب سے اہم اتحاد باہمی ہے۔‘‘امام تنویر (شیعہ عالم) نے کہا ’’وقف جائیداد ہے اور اس کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔ آج مساجد چھینی جارہی ہے، شان رسالتمآب میں گستاخی کی جارہی ہے، مساجد سے اللہ کی بڑائی کی آواز بند کرنے کا منصوبہ ہے۔‘‘ انہوں نےپیغام دیا کہ متحد ہوجاؤ کیونکہ باطل کا ٹارگٹ مسلک نہیں اسلام ہے، اسی لئے شیعہ سنی دیوبندی اور اہل حدیث کے بجائے متحد ہوجائیے ۔
وقف کے چیئرمین نے کیا کہا؟
میٹنگ میں وقف بورڈکے چیئرمین سمیر قاضی نے کہا کہ ’’وقف ایکٹ ۱۹۹۵ءہے، اس میں تبدیلی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی گئی۔ آپ لوگوں میں سے بتائیے کہ پہلے وقف ایکٹ کو کتنے لوگوں نے پڑھا۔‘‘ انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ وقف میں ترمیم کے باوجود اس کی آٹونومس باڈی کے پاور اور اختیارات میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔انہوں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ’’ میں پیشے سے بلڈر ہوں۔‘‘ یہ بھی دعویٰ کیا کہ ’’جب مجھے یہ ذمہ داری ملی تو میں نے ایکٹ پڑھا اور پڑھ کر بہت رویا کہ اتنے خوبصورت ایکٹ کے باوجود ہم نے کیا کیا۔ مہاراشٹر میں ایک لاکھ ایکڑ وقف کی زمینات ہیں۔ اس میں ۶۰؍ فیصد زمینات پر ناجائز قبضے ہیں۔ آج ہماری بہنوں کے حجاب اتارنے پر بحث ہوتی ہے، ہم نے خود کیوں اپنا کالج نہیں بنایا؟ ‘‘انہوں نے وقف املاک کے تعلق سے ملت کی ذمہ داری یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ’’سب اپنی ذمہ ادا کریں، جیسے ذاتی معاملات میں ہم فکر کرتے ہیں۔ وقف بورڈ کی حالت یہ تھی کہ پہلے نوجوان غیر مستقل انداز میں کام کرتے ہیں، ہم نے اس پر توجہ دی اور اسٹاف بڑھایا، ہر ضلع میں دفاتر بنائے اور وقف بورڈ کی آمدنی بھی بڑھی۔ ہم نے کیش وقف اماؤنٹ کھلوایا ، میرے سے پہلے یہ اکاؤنٹ ہی نہیں کھولا گیا تھا۔ اس سے طلبہ کو اسکالر شپ دی جاتی ہے اور بیڑ میں موسلادھار بارش سے متاثر ہونے والے۱۷؍ خاندانوں کی ۲۰، ۲۰؍ ہزار روپے دے کر مدد کی گئی۔ یہ وقف کی املاک آپ کی ہیں، اسے مل جل کر استعمال کیجئے۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’میں شیوسینا شندے گروپ کا ہوں ۔‘‘ انہوں نے ۸۰؍کروڑ روپے کا فنڈ لانے کا بھی یہ کہتے ہوئے دعویٰ کیا کہ۷۰؍سال میں ایسا نہیں ہوا تھا۔‘‘انہوں نے مہاراشٹر وقف بورڈ کا میڈیکل کالج بنانے اور اسٹیڈیم بنانے کے ساتھ مرکزی حکومت کے ذریعے۶۰۰؍کروڑ روپے کافنڈ مختص کرنے کا بھی دعویٰ کیا۔ بیڑ میں ملک کا وقف بورڈ کا پہلا میڈیکل کالج ہوگا۔ بقول سمیرقاضی ’’اگر ایک لاکھ ایکڑ زمینات ڈیولپ ہوگئیں تو میں نے حساب لگایا ہے کہ ۵؍ہزار کروڑ کی آمدنی ہوگی ۔ ایک کالج بنانے پر۴۰۰؍کروڑ لگتے ہیں۔‘‘
اس نشست کے انعقاد میں مختلف مقامی سماجی اور مذہبی تنظیمیں شامل تھیں۔ یوسف رانا نے نظامت کی۔