چاکن صنعتی پٹی جوایک اہم اقتصادی راہداری ہے جس میں ہندوستان کی سب سے بڑی آٹوموبائل اور مینوفیکچرنگ کمپنیاں واقع ہیں۔ یہاں بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے۔
EPAPER
Updated: August 05, 2025, 12:43 PM IST | Archana Dahiwal | Mumbai
چاکن صنعتی پٹی جوایک اہم اقتصادی راہداری ہے جس میں ہندوستان کی سب سے بڑی آٹوموبائل اور مینوفیکچرنگ کمپنیاں واقع ہیں۔ یہاں بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے۔
یہاں کے چاکن ایم آئی ڈی سی کے ملازمین کوکام سے چھوٹنے کے بعد گھر پہنچنے کیلئے ۳۰؍ کلومیٹر کے سفر کو ۸؍ گھنٹے لگ رہے ہیں جس سے وہ بےحد پریشان ہیں۔ شام ۵؍ بجے کام ختم کرنے کے نکلنے والا مزدور اپنے گھر رات ایک بجے پہنچ پاتا ہے۔ یہی نہیں طلبہ کو اسکول سے گھر پہنچنے کیلئے ۳؍ کلومیٹر کا فیصلہ طے کرنے میں ۳؍ گھنٹے کا وقت لگ رہا ہے، وہ ساڑھے ۸؍ بجے اپنے گھر پہنچتے ہیں۔
چاکن صنعتی پٹی ایک اہم اقتصادی راہداری ہے جہاں ہندوستان کے سب سے بڑے آٹوموبائل اور مینوفیکچرنگ کمپنیاں واقع ہیں۔ یہاں بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے۔ ہندوستان کی معیشت میں اہم شراکت دار ہونے کے باوجود یہ علاقہ خطرناک طور پر گڑھے والی سڑکوں، سڑکوں کی ناقص دیکھ ریکھ اور ٹریفک کے ناکافی ضابطوں کی وجہ سے خراب ہےجس کی وجہ سے روزانہ ٹریفک میں خلل پڑتا ہے۔چاکن ایم آئی ڈی سی اور تلےگاؤں کے درمیان کا حصہ خاص طور پر مانسون میں خراب ہوجاتا ہے جہاں بڑے بڑے گڑھے پڑجاتے ہیں اور انہیں بھرنے کا کام نہیں کیا جاتا ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گاڑیوں میں بار بار خرابی، حادثات میں اضافہ اور مزدور طبقے کے افراد اس میں گھنٹوں پھنسے رہتے ہیں۔
بیڑ سے پونے کام کیلئے منتقل ہونے والے اومکار شندے نے کہاکہ ’’ہم اس کی وجہ سے روزانہ کام کے قیمتی اوقات کھو دیتے ہیں۔ صنعتوں کو نقصان ہوتا ہے، مزدوروں کو تکلیف ہوتی ہے لیکن کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔‘‘ انہیں اب روزانہ تقریباً۶؍ سے۷؍ گھنٹے صرف سفر میں لگ رہے ہیں۔ سیالی کمار جنہوں نے ناسک سے چاکن کا سفر کیاہے، نے کہاکہ ’’ پونے کے اس بڑے صنعتی مرکز میں بنیادی ڈھانچے کی کافی کمی ہے۔ ہر روز ہمیں گڑھوں سے بھری سڑکوں پر ٹریفک کی افراتفری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان صنعتوںکا قومی معیشت میں اپنا حصہ ہے پھر بھی ہمارے نمائندوں کی طرف سے عوام کی تکالیف کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔‘‘
پچھلے دو مہینوں سے خطے میں شدید بارش کے باوجودمانسون کی تیاری کیلئے سڑکوں کی مرمت نہیں کی گئی۔ جان لیوا حادثات کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے مزدوروں میں بے چینی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ کچھ کمپنیاں اب اپنا کام تبدیل کرنے پر غور کر رہی ہیں کیونکہ ملازمین روزانہ کی آزمائش سے بچنے کیلئے کہیں اور ملازمتیں تلاش کر رہے ہیں۔ اس معاملے سے سیاستداں بڑی حد تک لاتعلق نظر آرہے ہیں، اکثر اس مسئلے کو سیاسی مقاصدکیلئے استعمال کیا جاتا ہے لیکن حقیقی حل پیش کرنے میں وہ ناکام رہتے ہیں۔
گزشتہ برسوں میں ٹریفک پولیس نے بھی ریت اورچھوٹے پتھروں سے گڑھے بھرنے کی کوشش کی۔ تاہم ان عارضی مرمتوں کے بعد کبھی بھی سڑکوں کو تارکول سے نہیں بنایا گیا خاص طور پر مانسون سے قبل۔ امسال حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔ نکاسی آب کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے سڑک کے بڑے حصے زیر آب ہیں۔ کئی سینئر ایگزیکٹیوز اب ٹریفک کی بدترین صورتحال کے سبب ۲؍ گھنٹے قبل کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔اس علاقے میں شام کا سفر کافی خطرناک ہو گیا ہے۔
فیڈریشن آف چاکن انڈسٹریز کے بانی دلیپ بٹوال نے گزشتہ روزاس نمائندے کو بتایاکہ ’’پونے سے سب سے زیادہ صنعتی محصولات ملتاہے، اس کے باوجود یہاں بنیادی ڈھانچے میں کوئی بہتری نہیں ہوئی ہے۔ صورتحال ہر سال بگڑتی جا رہی ہے۔ حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہو رہا ہےلیکن اس علاقے کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اس کا نقصان نہ صرف پونے بلکہ پوری ریاست کو ہو گا۔چاکن-تلےگاؤں ایم آئی ڈی سی میں بنیادی ڈھانچے کی ابتر صورتحال کی وجہ سے کمپنیاں دیگر ریاستوں میں جارہی ہیں۔ ہمارے صبرکا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے۔‘‘
پونے میٹروپولیٹن ریجن ڈیولپمنٹ اتھاریٹی (پی ایم آر ڈی اے) کے ڈویژنل کمشنر ڈاکٹر یوگیش مہسے نے اس بارے میںکہاکہ ’’پی ایم آر ڈی اے نے متعلقہ محکموں کو ہدایت دی ہے کہ وہ سڑکوں کی مرمت کیلئے تجاویز پیش کریں اور حکومت سے فنڈحاصل کرنے کیلئے سرگرم رہیں۔‘‘ پی ایم آر ڈی اے کی ایک حالیہ میٹنگ میںاس علاقے میں اہم راستوں کے ساتھ سڑکوں کی مرمت اور ان کی توسیع کے متعدد منصوبوں کا اعلان کیا گیا۔