پونے میں کارگل جنگ کے فوجی کے خاندان سے شہریت کے ثبوت طلب کئے گئے، خاندان کا الزام ہے کہ پولیس خاموش تماشائی بنی رہی جب ہندوتوا تنظیم سے وابستہ تقریباً ۸۰؍ افراد نے ان کے گھر پر دھاوابول دیا۔
EPAPER
Updated: July 31, 2025, 7:37 PM IST | Pune
پونے میں کارگل جنگ کے فوجی کے خاندان سے شہریت کے ثبوت طلب کئے گئے، خاندان کا الزام ہے کہ پولیس خاموش تماشائی بنی رہی جب ہندوتوا تنظیم سے وابستہ تقریباً ۸۰؍ افراد نے ان کے گھر پر دھاوابول دیا۔
مہاراشٹر میں کرگل جنگ کے ایک سابق فوجی کے خاندان نے الزام عائد کیا ہے کہ ہندوتوا تنظیم سے وابستہ تقریباً۸۰؍ افراد نے ان کے گھر پردھاوا بول دیا اور انہیں بنگلہ دیشی قرار دیتے ہوئے ہندوستانی شہریت کے ثبوت طلب کیے۔ خاندان کے مطابق یہ واقعہ۲۸؍ جولائی کی آدھی رات پونے کے چندن نگر علاقے میں پیش آیا۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے مطابق، اس وقت سادے کپڑوں میں موجود کچھ پولیس اہلکاروں نے خاموش تماشائی بننے کو ترجیح دی۔۴۸؍ سالہ ارشد شیخ نے بتایا کہ ان کے بڑے بھائی حکیم الدین شیخ (فی الحال یوپی کے پرتاپ گڑھ میں مقیم) ہندوستانی فوج میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور کارگل جنگ میں حصہ لیا تھا۔ وہ سن۲۰۰۰ء میں انجینئرز رجمنٹ سے حوالدار کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔
ارشد شیخ نے الزاملگایا کہ ’’تقریباً ۸۰؍ افراد اچانک ہمارے گھر آئے اور دروازے کھٹکھٹانے لگے۔ جب ہم نے دروازہ کھولا تو کچھ لوگ اندر گھس گئے اور خاندان کے اراکین کے آدھار کارڈ مانگنے لگے۔ جب ہم نے دستاویزات دکھائے تو انہوں نے انہیں جعلی قرار دے دیا اور خواتین و بچوں سے آدھار کارڈز دکھانے کا مطالبہ کیا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ میں نے گروپ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ خاندان گزشتہ۶۰؍ سال سے یہاں رہ رہا ہے اور بڑے بھائی کے علاوہ ان کے دو چچا بھی فوج میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔لیکن گروپ کے اراکین سننے کے موڈ میں نہیں تھے۔ انہوں نے گالم گلوچ کی اور ہمیں بنگلہ دیشی قرار دیا۔ میں نے انہیں کہا کہ اگر وہ تحقیقات کرنا چاہتے ہیں تو خوش آمدید، لیکن آدھی رات کسی کے گھر میں گھسنا، گالم گلوچ کرنا اور بچوں کو دستاویزات دکھانے پر مجبور کرنا مناسب نہیں۔‘‘ شیخ کا دعویٰ ہے کہ جب ہندوتوا کارکنوں نے ’جے شری رام‘ کے نعرے لگانے شروع کیے اور خاندان کو پولیس اسٹیشن چلنے پر مجبور کرنا چاہا، تو ان کے ساتھ موجود دو افراد نے خود کو پولیس اہلکار بتایا۔ ’’پورے واقعے کے دوران یہ دونوں سادہ لباس پولیس اہلکار خاموش کھڑے رہے اور کچھ نہیں کیا۔‘‘ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ چندن نگر پولیس اسٹیشن پہنچنے پر خاتون انسپکٹر نے ان کے کاغذات لے کر باہر انتظار کرنے کو کہا۔ دو گھنٹے انتظار کروانے کے بعد افسر نے اگلے دن دوبارہ آنے کو کہا اور انتباہ دیا کہ اگر ہم نہ آئے تو ہمیں بنگلہ دیشی شہری قرار دے دیا جائے گا۔‘‘
ٹرانسپورٹ شعبے میں کام کرنے والے ارشد شیخ کے مطابق، پولیس اب ان پر واقعے کو دبانے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ کوئی ان کے گھر میں نہیں گھسا۔’’اگر دستاویزات میں کوئی خامی ہوتی تو پولیس جبری کارروائی کرتی۔ لیکن چونکہ ہمارے تمام کاغذات اصلی ہیں، وہ اب ہمیں خاموش رہنے کو کہہ رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے زور دیا کہ وہ اپنی۴۰۰؍ سال پرانی ہندوستانی شہریت کے ثبوت فراہم کر سکتے ہیں۔ خاندان کے کئی اراکین ہندوستانی فوج میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ’’میرے چچا۱۹۷۱ء کی جنگ میں بم دھماکے سے زخمی ہوئے تھے اور انہیں بہادری کا اعزاز ملا۔ ایک اور چچا نے۱۹۶۵ء کی ہند-پاک جنگ میں عبدالحمید کے ہمراہ لڑائی لڑی۔‘‘
دریں اثناء اس واقع کے تعلق سے ڈی سی پی سومیا منڈے (زون۴؍)نے ایک بیان میں کہا کہ ’’ شیخ کے گھر میں بڑے گروپ کے داخل ہونے جیسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ غیر قانونی بنگلہ دیشیوں کے خلاف مہم جاری ہے۔ معلومات ملنے پر پولیس نے دستاویزات کی تصدیق کے لیے گھر کا دورہ کیا۔ رات ہونے کی وجہ سے صرف کچھ مردوں کو پولیس اسٹیشن بلایا گیا۔ بادی النظر کوئی غیرقانونی عمل نہیں ملا۔‘‘ جبکہ راہل دمبلے (قومی اقلیتی کانفرنس کے صدر) کا کہنا ہے کہ ’’ہندوتوا تنظیم کے اراکین نے فوجی کے خاندان کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی۔ ہم اس سلسلے میں ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پونے کے پولیس کمشنر امیتیش کمار سے ملاقات کر کارروائی کا مطالبہ کریں گے۔‘‘