پنجاب کے ہرگوبندپور میں واقع ۱۷؍ ویں صدی کی ’’ گرو کی مسجد‘‘ سکھ گرو ہرگوبند سنگھ نے تعمیر کروائی تھی،۱۹۴۷ء میں مسلمانوں کے ہجرت کے بعد اب نہنگ سکھ اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں، یہ مسجد بین المذاہب ہم آہنگی کی علامت ہے۔
EPAPER
Updated: April 03, 2025, 10:14 PM IST | Amritsar
پنجاب کے ہرگوبندپور میں واقع ۱۷؍ ویں صدی کی ’’ گرو کی مسجد‘‘ سکھ گرو ہرگوبند سنگھ نے تعمیر کروائی تھی،۱۹۴۷ء میں مسلمانوں کے ہجرت کے بعد اب نہنگ سکھ اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں، یہ مسجد بین المذاہب ہم آہنگی کی علامت ہے۔
پنجاب کے ہرگوبند پور میں واقع ۱۷؍ ویں صدی کی یہ مسجد، جسے یونیسکو اور یواین ڈی پی نے بین المذاہب ہم آہنگی کی ایک یادگار قرار دیا ہے، آج خاموش کھڑی ہے۔ یہ عبادت گاہ نمازیوں سے خالی ہے۔ ’’گرو کی مسجد‘‘کے نام سے مشہور یہ عبادت گاہ سکھ گرو ہرگوبند سنگھ کے حکم پر علاقے کی مسلم اقلیت کیلئے بنائی گئی تھی۔ مگر صدیوں بعد، اگرچہ سکھوں نے اسے احتیاط سے سنبھال رکھا ہے، لیکن اس کے اندر نماز پڑھنے والا کوئی مسلمان موجود نہیں۔مسجد کی تاریخ۱۶؍ویں صدی کے آغاز سے جڑی ہے، جب چھٹے سکھ گرو ہرگوبند سنگھ نے بیاس دریا کے قریب ہرگوبندپور شہر کی بنیاد رکھی۔ مغل شہنشاہ جہانگیر کے دور میں بڑھتے مذہبی تناؤ کے باوجود، گرو جنہیں روحانی اور جنگی طاقت کا علمبردار سمجھا جاتا تھا، نے ایک انوکھا قدم اٹھایا۔
جب انہیں معلوم ہوا کہ مقامی مسلمانوں کے پاس عبادت کی جگہ نہیں ہے، تو انہوں نے ایک پہاڑی پر مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ مقامی مورخ بلدیو سنگھ کہتے ہیں کہ ’’گرو جی کا اصول تھا کہ کسی کو اس کے عقیدے سے محروم نہیں کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے یقینی بنایا کہ مسلمانوں کے پاس نماز پڑھنے کی جگہ ہو، چاہے ان کی تعداد کتنی ہی کم کیوں نہ ہو۔‘‘ صدیوں تک، اس مسجد سے اذان کی آواز گونجتی رہی, یہاں تک کہ۱۹۴۷ء میں تقسیمِ ہند کے بعد ہرگوبندپور کے مسلم خاندان پاکستان ہجرت کر گئے۔ مسجد ویران ہو سکتی تھی، لیکن اس کے سکھ پڑوسیوں نے تاریخ کو مٹنے نہیں دیا۔
یہ بھی پڑھئےؒ : ’’وقف بل فرقہ وارانہ سیاست کی نئی شکل ہے‘‘
۱۹۹۰ءکی دہائی میں، پنجاب وقف بورڈ نے سکھ رہنماؤں سے رابطہ کیا اور مسجد کی بحالی کی درخواست کی۔ نہنگ لیڈر بابا پریم سنگھ بتاتے ہیں کہ ’’ہم نے ان سے کہا کہ یہ صرف ایک مسجد نہیں، بلکہ گرو جی کا تحفہ ہے۔‘‘ مورخین نے بھی اس بات سے اتفاق کیا، اور۲۰۲۲ء میں سکھ رضاکاروں نے اس کی مرمت کی قیادت کی۔ مسجد کی بحالی نے عالمی توجہ اس وقت حاصل کی جب۲۰۰۳ء میں یونیسکو اور یواین ڈی پی کے ’’کلچر فار پیس ‘‘منصوبے نے اسے ’’رواداری کی یادگار‘‘ قرار دیا۔ اس موقع پر امرتسر کی جامع مسجد کے امام مولانا حامد حسین قاسمی نے عید کی نماز پڑھائی ، ایک ایسے شہر میں جہاں اب کوئی مسلمان نہیں رہتا۔
یہ بھی پڑھئے: سنبھل جامع مسجد کیس سے متعلق عرضی خارج کردی گئی
آج، مسجد کی دیکھ بھال نہنگ سکھ کرتے ہیں، جو احترام کے ساتھ اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ سیوا دار جوگندر سنگھ کہتے ہیں،کہ ’’ہم اس کے فرش صاف کرتے ہیں، دیواریں مرمت کرتے ہیں،بالکل اسی طرح جیسے ہمارے بزرگوں نے گرو جی کی خواہش کا احترام کیا تھا۔ لیکن مقامی مسلمانوں کے نہ ہونے کی وجہ سے نماز کا اہتمام کم ہی ہوتا ہے۔ جیسے گرو کی مسجد اپنے مشترکہ ماضی کی ایک پاکیزہ نشانی بنی کھڑی ہے، ایک سوال ذہن میں گونجتا ہے،کیا صرف علامتیں رواداری کے جذبے کو زندہ رکھ سکتی ہیں؟ فی الحال، اس کے محافظ اپنے عمل سے جواب دیتے ہیں۔ بابا پریم سنگھ کہتے ہیں، ہم اس ورثے کی حفاظت کریں گے، کیونکہ گرو جی نے ہمیں سکھایا تھا کہ عقیدہ سب کیلئے ہے۔‘‘