امریکہ مخالف لیڈران کی ملاقات ، واشنگٹن کیلئے سخت پیغام ، یہ پیش رفت عالمی سطح پر فوجی طاقت کے توازن پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
EPAPER
Updated: September 03, 2025, 3:23 PM IST | Agency | Beijing
امریکہ مخالف لیڈران کی ملاقات ، واشنگٹن کیلئے سخت پیغام ، یہ پیش رفت عالمی سطح پر فوجی طاقت کے توازن پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
چین کے شمالی شہر تیانجن میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سالانہ اجلاس میں روسی صدر ولادیمیر پوتن اور ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کی شرکت کے بعد ایک اہم پیش رفت دیکھنے میں آئی جب چینی صدر شی جن پنگ نے اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ تصویر کھنچوائی۔ منگل کو انہوں نے شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن کابھی استقبال کیا۔
تین طاقتوں کا اتحاد
چین، روس اور شمالی کوریا کے سربراہان پہلی مرتبہ ایک ساتھ گفتگو کیلئے ساتھ بیٹھ رہے ہیں۔ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہےجب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور مغربی لیڈران اس پیش رفت کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق بیجنگ میں پوتن اور ِکم جونگ اُن کی موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ چین مغربی غلبے والے عالمی نظام کو ازسرنو متعین کرنا چاہتا ہے۔
عالمی طاقت کا نیا محور
اس اجلاس سے ایک نئے سہ فریقی اتحاد کے امکانات بھی پیدا ہوئے ہیں خصوصاً جون ۲۰۲۴ء میں روس اور شمالی کوریا کے درمیان دفاعی معاہدے اور چین کے ساتھ قریبی تعلقات کی روشنی میں یہ پیش رفت ہو رہی ہے۔ یہ پیش رفت ایشیا اور بحرالکاہل میں فوجی طاقت کے توازن پر گہرے اثرات ڈال سکتی ہے۔
طاقت کا مظاہرہ
شی جن پنگ نے ایک روز قبل امریکی سیاست اور دباؤ کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا کو اصل کثیرالجہتی کی ضرورت ہے۔ اجلاس کے بعد تینوں رہنما ۳؍ ستمبر(آج) کو جنگ عظیم دوم کی یاد میں ہونے والی بڑی فوجی پریڈ میں شریک ہوں گے۔یاد رہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم ابتدا میں وسطی ایشیا میں امریکی اثرورسوخ کے مقابلے کیلئے قائم کی گئی تھی، جو آج ایک وسیع اور بااثر پلیٹ فارم بن چکی ہے۔
وزیر اعظم مودی کی شرکت کے معنی
یاد رہے کہ مذکورہ اجلاس میں وزیر اعظم مودی نے بھی شرکت کی۔ امریکہ کی ٹیریف اور دیگر ذرائع سے کاروباری نقصان پہنچانے کی کوشش کے بعد ہندوستان بھی عالمی سطح پر نئے راستے تلاش کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ۵؍ یا ۶؍ سال سے چین کے ساتھ جاری تنازعات کو نظر انداز کرتے ہوئے وزیراعظم شنگھائی پہنچے۔ انہوں نے چینی صدر سے دوستانہ ماحول میں گفتگو کی۔ ہر چند کہ عالمی میڈیا نے زیادہ تر پوتن، کم جونگ اُن اور شی جن پنگ کی ملاقات کو مشتہر کیا۔