قطر اور پاکستان دونوں نے اس بات پر زور دیا کہ اختلافات کے باوجود، اگر ٹرمپ کے غزہ منصوبے کو تعمیری طور پر آگے بڑھایا جائے تو یہ امن کیلئے ایک اہم اقدام ثابت ہوسکتا ہے۔
EPAPER
Updated: October 01, 2025, 6:00 PM IST | Doha/Islamabad
قطر اور پاکستان دونوں نے اس بات پر زور دیا کہ اختلافات کے باوجود، اگر ٹرمپ کے غزہ منصوبے کو تعمیری طور پر آگے بڑھایا جائے تو یہ امن کیلئے ایک اہم اقدام ثابت ہوسکتا ہے۔
قطر اور پاکستان نے منگل کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے غزہ کیلئے ۲۰؍ نکاتی منصوبے کا خیرمقدم کیا اور ساتھ ہی اس بات پر زور دیا کہ چند تجاویز پر اب بھی مزید گفتگو اور ان میں ترامیم کی ضرورت ہے۔ قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے الجزیرہ کو بتایا کہ اگرچہ یہ منصوبہ جنگ کے خاتمے کی طرف ایک اہم قدم ہے، لیکن ”کچھ مسائل… کو واضح کرنے اور ان پر مذاکرات کی ضرورت ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ ”ہم امید کرتے ہیں کہ ہر کوئی اس منصوبے کو تعمیری نقطہ نظر سے دیکھے گا اور جنگ ختم کرنے کے موقع کو غنیمت جانے گا۔“
قطری وزیر اعظم نے نوٹ کیا کہ قطر اور مصر سمیت ثالثوں نے پہلے ہی حماس کو بتا دیا ہے کہ ان کا بنیادی مقصد غزہ میں تشدد کو روکنا اور انسانی تباہی کو ختم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”قطراب غزہ میں جنگ، قحط، قتل و غارت اور نقل مکانی کو ختم کرنے پر خاص توجہ دےرہا ہے۔“ تاہم، دوحہ اب بھی حماس کے باضابطہ جواب کا انتظار کر رہا ہے۔ شیخ محمد نے زور دیا کہ عرب اور اسلامی ممالک نے مسلسل اپنی زمین پر فلسطینیوں کی موجودگی کے تحفظ اور دو ریاستی حل کی طرف بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ منصوبے کی زبان بے عیب نہیں ہے، لیکن ان ماننا ہے کہ مذاکرات کو موجودہ تحریک کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہئے۔
’یہ ہمارا دستاویز نہیں ہے‘: پاکستان
پاکستان کے وزیرِ داخلہ اسحاق ڈار نے اسلام آباد میں اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا۔ ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران، ڈار نے ٹرمپ کے غزہ منصوبے کے بارے میں کہا کہ ”یہ وہ دستاویز نہیں ہے جو ہم نے دیا تھا… ہم اس میں کچھ اہم شعبے شامل کرنا چاہتے ہیں۔“ انہوں نے زور دیا کہ ہماری فوری ترجیحات جنگ بندی کرانا، غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانا اور جبری نقل مکانی کو روکنا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ کےجنگ بندی منصوبہ پراہل فلسطین کا عدم اطمینان
ڈار نے ٹرمپ کے منصوبے کو ”ان کی طرف سے ایک اعلان“ قرار دیا لیکن انہوں نے پاکستان، سعودی عرب، قطر، ترکی اور مصر سمیت ۸ مسلم ممالک کی طرف سے پہلے ہی جاری کئے گئے مشترکہ بیان کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ مسودے میں ”ہماری تمام تجاویز شامل نہیں ہیں۔“
قطر اور پاکستان دونوں نے اس بات پر زور دیا کہ اختلافات کے باوجود، اگر اس منصوبے کو تعمیری طور پر آگے بڑھایا جائے تو یہ امن کیلئے ایک اہم اقدام ثابت ہوسکتا ہے۔