• Thu, 02 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ٹرمپ کا غزہ کیلئے ۲۰؍ نکاتی منصوبے کا اعلان، حماس کو بھیجا گیا، یورپی اور مسلم ممالک نے خیر مقدم کیا

Updated: September 30, 2025, 8:36 PM IST

ٹرمپ کے منصوبے میں غزہ میں جنگ بندی، قیدیوں کا تبادلہ، علاقے کی حکمرانی میں تبدیلیاں، بین الاقوامی نگرانی اور بالآخر فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف ایک راستہ شامل ہے۔

Trump and Netanyahu. Photo: X
ٹرمپ اور نیتن یاہو۔ تصویر: ایکس

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اسرائیل-حماس جنگ کے خاتمے کیلئے ایک جامع ۲۰؍ نکاتی منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ وہائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات کے دوران ٹرمپ نے کہا کہ یہ اقدام، تقریباً دو سال سے جاری لڑائی کو ختم کرنے اور ”لوگوں کے فائدے کیلئے غزہ کو دوبارہ تعمیر کرنے کا قریبی موقع فراہم کرتا ہے جنہوں نے بہت زیادہ دکھ برداشت کئے ہیں۔“ رپورٹس کے مطابق، اس منصوبے کو مصر اور قطر نے فوری طور پر حماس تک پہنچا دیا ہے۔ اس منصوبے میں جنگ بندی، قیدیوں کا تبادلہ، علاقے کی حکمرانی میں تبدیلیاں، بین الاقوامی نگرانی اور بالآخر فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف ایک راستہ شامل ہے۔

یہ بھی پڑھئے: ’گلوبل صمود فلوٹیلا‘ آج غزہ پہنچ سکتا ہے

ٹرمپ کا ۲۰؍ نکاتی منصوبہ

۱. دہشت گردی سے پاک غزہ: فلسطینی علاقے کو ”دہشت گردی سے پاک علاقہ“ میں تبدیل کیا جائے گا۔

۲. غزہ کی تعمیر نو: غزہ کی فلسطینی آبادی کے فائدے کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے دوبارہ تعمیر کیا جائے گا۔

۳. فوری جنگ بندی: اگر دونوں فریق متفق ہو جاتے ہیں، تو لڑائی رک جائے گی اور اسرائیلی فوجی، انخلاء تک اپنی جگہوں پر منجمد رہیں گے۔

۴. یرغمالیوں کی رہائی: اسرائیل کی منظوری کے ۷۲ گھنٹوں کے اندر، حماس کو تمام زندہ اور مردہ یرغمالیوں کو واپس کرنا ہوگا۔

۵. قیدیوں کا تبادلہ: اسرائیلی جیلوں میں عمر قید کی سزا بھگت رہے ۲۵۰ فلسطینی قیدیوں اور ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد حراست میں لئے گئے غزہ کے ۱۷۰۰ فلسطینیوں کو اسرائیل رہا کرے گا، نیز ہر ہلاک یرغمالی کے بدلے ۱۵ فلسطینیوں کی باقیات بھی واپس کرے گا۔

۶. حماس کیلئے معافی: جو جنگجو ہتھیار ڈال دیں گے اور پرامن بقائے باہمی کا عہد کریں گے، انہیں معافی یا بیرون ملک جانے کا محفوظ راستہ دیا جائے گا۔

۷. انسانی امداد: مکمل پیمانے پر امداد کی فراہمی دوبارہ شروع ہوگی، جس میں بجلی، پانی، ہسپتال اور ملبہ ہٹانا شامل ہے۔

۸. امداد کی نگرانی: اقوام متحدہ، ریڈ کریسنٹ اور غیر جانبدار ایجنسیاں، غزہ میں امداد کی نگرانی کریں گی۔

۹. عبوری حکمرانی: ایک ٹیکنوکریٹک فلسطینی کمیٹی، بین الاقوامی نگرانی میں غزہ کا نظام حکومت سنبھالے گی۔

۱۰. امن بورڈ: ایک نگرانی کا ادارہ جس کی صدارت ٹرمپ کریں گے اور جس میں برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر جیسے لیڈر شامل ہوں گے، تعمیر نو کی مالی مدد کرے گا۔

۱۱. اقتصادی ترقی کا منصوبہ: ایک ترقیاتی پروگرام سرمایہ کاروں کو راغب کرے گا اور غزہ کی معیشت کو دوبارہ تعمیر کرے گا۔

۱۲. خصوصی اقتصادی زون: غزہ کو ترجیحی تجارتی رسائی اور ٹیرف سے راحت جیسے فائدے ملیں گے۔

۱۳. جبری نقل مکانی نہیں: رہائشی آزادانہ طور پر چھوڑ سکتے ہیں یا واپس آ سکتے ہیں؛ کسی کو بے دخل نہیں کیا جائے گا۔

۱۴. غیر فوجی سازی: حماس اور مسلح فلسطینی گروپس کو بین الاقوامی نگرانی میں سرنگیں، ہتھیاروں کی فیکٹریاں اور فوجی ڈھانچے ختم کرنا ہوں گے۔

۱۵. علاقائی ضمانتیں: عرب شراکت دار ان شرائط کی تعمیل کی ضمانت دیں گے اور غزہ کو خطرہ بننے سے روکیں گے۔

۱۶. بین الاقوامی استحکامی فورس: ایک کثیر القومی فورس غزہ کی سرحدوں کو محفوظ بنائے گی، فلسطینی پولیس کو تربیت دے گی اور اس کی تعمیر نو میں مدد کرے گی۔

۱۷. اسرائیلی انخلاء: اسرائیلی افواج آہستہ آہستہ علاقے سے انخلاء کرے گی جب بین الاقوامی استحکامی فورس غزہ کا کنٹرول سنبھالے گی۔

۱۸. ہنگامی شق: اگر حماس منصوبے کو مسترد کرتی ہے تو امداد اور تعمیر نو ان علاقوں میں جاری رہے گی جہاں بین الاقوامی استحکامی فورس سیکوریٹی فراہم کرے گی۔

۱۹. بین المذاہب مکالمہ: فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان رواداری اور امن کو فروغ دینے کیلئے پروگرام شروع کئے جائیں گے۔

۲۰. ریاست کی طرف راستہ: ایک بار جب فلسطینی اتھارٹی کی اصلاحات کامیاب ہو جائیں گی، تو حالات قابل اعتبار فلسطینی حق خودارادیت اور بالآخر ریاست کے قیام کی اجازت دے سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: نیتن یاہو کی یرغمالوں کی رہائی کے بدلےحماس کو معافی اورمحفوظ راستہ دینے کی پیشکش

اسرائیل نے منصوبے کا خیرمقدم کیا

اسرائیلی وزیر اعظم نے ٹرمپ کے منصوبے کا خیرمقدم کیا اور یرغمالیوں کی واپسی اور حماس کی غیر مسلح کاری پر زور دیا۔ انہوں نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ”اس منصوبے کے تحت غزہ کو غیر فوجی بنایا جائے گا، حماس کو غیر مسلح کیا جائے گا اور ہمارے یرغمالی، زندہ یا مردہ، گھر واپس آئیں گے۔“ تاہم، نیتن یاہو نے اصرار کیا کہ اسرائیل ”آنے والے وقت کیلئے“ ایک سلامتی کی حد برقرار رکھے گا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حماس اس منصوبے کو مسترد کرتا ہے تو اسرائیل ”خود ہی کام مکمل کرے گا۔“

فلسطین کا ردعمل

فلسطینی ایوانِ صدر نے سرکاری خبر رساں ایجنسی وفا کے ذریعے ایک بیان جاری کرکے ٹرمپ کی ”مخلصانہ کوششوں“ کی توثیق کی۔ اس نے ایک جامع معاہدے کیلئے واشنگٹن اور شراکت داروں کے ساتھ کام کرنے کا عہد کیا، جس میں انسانی امداد، قیدیوں کا تبادلہ، اسرائیلی انخلاء اور فلسطینیوں کیلئے تحفظ کے طریقہ کار پر زور دیا گیا۔ ایوانِ صدر نے زور دیا کہ امن کو غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے اتحاد کو یقینی بنانا چاہئے۔ بیان میں اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ کسی بھی معاہدے کو اسرائیل کے ساتھ شانہ بشانہ رہنے والی ایک آزاد فلسطینی ریاست کی طرف راہ ہموار کرنی چاہئے۔

یہ بھی پڑھئے: فلسطینی کمیٹی: اسرائیل نے مقدس سرزمین پر عیسائیوں کی موجودگی ختم کر دی

مصر کے مطابق، حماس نے تصدیق کی ہے کہ وہ ”اس منصوبے کا مثبت اور معروضی جائزہ لے رہا ہے۔“ خبر لکھے جانے تک، گروپ نے کوئی باضابطہ جواب جاری نہیں کیا۔ فلسطینی اتھارٹی نے ٹرمپ کی ”مخلصانہ اور پرعزم کوششوں“ کا خیرمقدم کیا اور اسرائیلی انخلاء، امداد کی فراہمی اور ”مشرقی یروشلم سمیت فلسطینی زمین اور اداروں کے اتحاد“ کی ضرورت پر زور دیا۔ اتھارٹی نے دو ریاستی حل کیلئے اپنی حمایت کا اعادہ کیا۔

اس کے برعکس، اسلامی جہاد گروپ نے اس منصوبے کو مکمل طور پر مسترد کر دیا اور اسے ”علاقائی دھماکے کا نسخہ“ قرار دیا۔ سیکریٹری جنرل زیاد النخلہ نے کہا کہ یہ ”امریکی-اسرائیلی معاہدے“ کی نمائندگی کرتا ہے جو اسرائیل کے موقف کو قائم کرتا ہے اور فلسطینیوں کے خلاف جارحیت کو بڑھاتا ہے۔

ہندوستان اور مسلم دنیا کا ردعمل 

وزیر اعظم نریندر مودی نے اس منصوبے کو ”طویل المدتی اور پائیدار امن، سلامتی اور ترقی کیلئے ایک قابل عمل راستہ“ قرار دیا۔ مودی نے مزید کہا کہ ہندوستان کو امید ہے کہ ”تمام متعلقہ فریق صدر ٹرمپ کی اس پہل کی حمایت میں اکٹھے ہوگے۔“ پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے بیان دیا ہے کہ اسلام آباد ”مدد کیلئے تیار“ ہے۔

مصر اور قطر، جو حماس اور اسرائیل کے درمیان متعدد جنگ بندی مذاکرات میں ثالثی کرچکے ہیں، نے حماس کو تجویز پیش کی اور ”معروضی جائزے“ پر زور دیا۔ انڈونیشیا، پاکستان، ترکیہ، سعودی عرب، قطر، اردن، متحدہ عرب امارات اور مصر کی جانب سے جاری کئے گئے مشترکہ بیان میں اس منصوبے کو ”مخلصانہ کوشش“ قرار دیتے ہوئے اس کی تعریف کی گئی ہے۔ ان ممالک نے دو ریاستی حل کے حوالے کا خیرمقدم کیا اور اس کے نفاذ میں کردار ادا کرنے کی تیاری کا عہد کیا۔

یہ بھی پڑھئے: حماس نے ٹونی بلیئر کو ”ناپسندیدہ شخصیت“ قرار دیا، غزہ میں تعیناتی کے امریکی منصوبے پر تنقید کی

یورپی اور مغربی ردعمل

یورپی لیڈران نے ٹرمپ کے اعلان کا وسیع پیمانے پر خیرمقدم کیا لیکن جوابدہی پر زور دیا۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ یہ منصوبہ ”امن کا ایک موقع پیدا کرتا ہے“ لیکن انہوں نے اسرائیل پر اس منصوبے میں ”پختہ طور پر شامل ہونے“ پر زور دیا اور حماس سے ”فوری طور پر تمام یرغمالیوں کو رہا کرنے“ کا مطالبہ کیا۔ برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے اس تجویز کا ”خیرمقدم“ کیا اور تمام فریقوں سے امریکہ کے ساتھ اس معاہدے کو حتمی شکل دینے اور اس پر عمل درآمد کرنے کی اپیل کی۔

غزہ نسل کشی

غزہ میں تاحال جاری اسرائیل کی تباہ کن فوجی کارروائیوں میں اکتوبر ۲۰۲۳ء سے اب تک ۶۵ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں بیشتر خواتین اور بچے ہیں۔ فلسطین کی سرکاری نیوز ایجنسی ’وفا‘ کے مطابق، تقریباً ۱۱ ہزار فلسطینی تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اموات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ۲ لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: غزہ: اسپتالوں کے بلڈ بینک بند ہونے کے دہانے پر، وزارت صحت کا انتباہ

اس نسل کشی کے دوران، اسرائیل نے محصور علاقے کے بیشتر حصے کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے اور اس کی تمام آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ اسرائیلی قابض افواج کی مسلسل بمباری کے باعث غزہ پٹی میں خوراک کی شدید قلت اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے حال ہی میں تصدیق کی ہے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے۔ 

گزشتہ سال نومبر میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف اسرائیل کی غزہ پر جنگ کے دوران مبینہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا حوالہ دیتے ہوئے گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تھے۔ اس کے علاوہ، اسرائیل بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں بھی نسل کشی کے مقدمے کا سامنا کر رہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK