قطر کے دارالحکومت دوحہ میں نامور مصور ایم ایف حسین کی زندگی اور فن پر مبنی ’’لوح و قلم‘‘ میوزیم کا افتتاح ہوا، مقبول فدا حسین ۹۵؍ سال کی عمر میں انتقال کر گئے، ان کے تقریباً۴۰؍ ہزار فن پارے اپنی مادر وطن کی ثروت مند میراث اور ثقافت سے متاثر تھے۔
EPAPER
Updated: December 02, 2025, 8:04 PM IST | Doha
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں نامور مصور ایم ایف حسین کی زندگی اور فن پر مبنی ’’لوح و قلم‘‘ میوزیم کا افتتاح ہوا، مقبول فدا حسین ۹۵؍ سال کی عمر میں انتقال کر گئے، ان کے تقریباً۴۰؍ ہزار فن پارے اپنی مادر وطن کی ثروت مند میراث اور ثقافت سے متاثر تھے۔
مصور مقبول فدا حسین کی زندگی برصغیر پاک و ہند کے نصف صدی سے زائد عرصے کے عظیم واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔ حسین نےممبئی کے دیگر مشہور مصور جیسے ایف این سوزا اور ایس ایچ رازا کے ہمراہ پروگریسو آرٹسٹس گروپ کی بنیاد رکھی جس نے ہندوستانی فن کو جدید دور کی طرف موڑ دیا۔حسین۹۵؍ سال کی عمر میں انتقال کر گئےان کے تقریباً۴۰؍ ہزار فن پارے اپنی مادر وطن کی ثروت مند میراث اور ثقافت سے متاثر تھے۔ ان کے کام میں تیل کے رنگوں سے بنی پینٹنگز، واٹر کلرز، لیتھوگراف، سیرے گراف، مجسمے اور انسٹالیشن کے علاوہ اردو، ہندی اور انگریزی میں نظمیں اور۱۹۶۷ء کے گولڈن بیئر ایوارڈ یافتہ فلم ’’تھرو د آیز آف اے پینٹر‘‘جیسی فلمیں شامل ہیں۔اس شخص کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جس نے اپنے آخری فنی باب کی تلاش کے لیے قطر کومنتخب کیا، قطر فاؤنڈیشن (کیو ایف) نے ۲۸؍ نومبر کو ’’ لوح و قلم‘‘: ایم ایف حسین میوزیم‘‘ کا افتتاح کیا۔
حفل افتتاح لوح وقلم: متحف مقبول فدا حسين
— موزا بنت ناصر Moza bint Nasser (@mozabintnasser) November 28, 2025
Inauguration of Lawh wa Qalam: M.F. Husain Museum pic.twitter.com/kvvVcmyut4
یہ فاؤنڈیشن ۱۹۹۵ء میں قائم ہونے والی ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے جو تعلیم، سائنس، تحقیق اور معاشرتی ترقی پر مرکوز اقدامات کے ذریعے پائیدار انسانی، سماجی اور معاشی ترقی کی حمایت کرتی ہے۔حسین خود کو عالمی خانہ بدوش سمجھتے تھے۔انہوں نےممبئی کے مشہور سر جے جے اسکول آف آرٹ میں تعلیم حاصل کی تھی، لیکن کھلونوں کے ڈیزائنر اور سنیما کے ہورڈنگ پینٹر کے طور پر ہی انہوں نے اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ انہوں نے ہندوستانی فن کے نوآبادیاتی دور کے بعد کی منتقلی، تنوع، سیاست، سنیما، مقبول داستانوں، مذاہب اور اساطیری کہانیوں کو سلسلہ وار زندگی کے کینوس پر تلاش کیا۔ انہیں راجیہ سبھا کے لیے نامزد کیا گیا تھا اور تین پدم ایوارڈز ملے، لیکن ان کے کچھ کاموںسے دائیں بازو کے انتہا پسندحلقے ناراض ہوگئے، جس کے نتیجے میں۲۰۱۰ء میں انہیں خودساختہ جلاوطنی اور قطری شہریت اختیار کرنی پڑی۔
’’لوح و قلم: ایم ایف حسین میوزیم‘‘ کی کیوریٹر اور قطر فاؤنڈیشن میں آرٹ پورٹ فولیو کی منیجر نوف محمد کہتی ہیں، ’’حسین پہلی بار۱۹۸۴ء میں قطر آئے تھے اور قطری مصور یوسف احمد کے ساتھ اپنے کام کی نمائش کی۔۲۰۰۷ء میں دوحہ میں میوزیم آف اسلامک آرٹ کے افتتاح کے موقع پر ان کا دورہ ملک کے ساتھ گہرے ثقافتی تعلق کا آغاز تھا۔ ملک میں ان کا وقت تخلیقی سرگرمیوں سے بھرپور تھا، جیسا کہ انہوں نے قطر کی ثقافتی اداروں کے زیر تکمیل کاموں کا ایک اہم ذخیرہ تیار کیا۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: پاکستان: عمران خان کے متعلق تشویش، بیٹوں کا ثبوتِ حیات کا مطالبہ مزید زور پکڑگیا
یہ میوزیم، جو۳؍ ہزار مربع میٹر سے زائد رقبے پر محیط ہے اور دوحہ کے ایجوکیشن سٹی میں واقع ہے، دنیا کا پہلا اور سب سے بڑا میوزیم ہے جو۱۹۵۰ء کی دہائی سے حسین کے فن پاروں کا سفر تلاش کرنے کے لیے وقف ہے، یہاں کا سب سے قدیم کام ’’ڈولز ویڈنگ ہے، اور۲۰۱۱ء میں ان کی وفات تک محیط ہے۔ اس میں۱۵۰؍ کام ،پینٹنگ، فلمیں، ٹیپسٹری، فوٹوگرافی، شاعری اور انسٹالیشنز نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں، جن میں سے کچھ ملٹی میڈیا کہانیوں کے ذریعے پیش کیے گئے ہیں۔
میوزیم میں حسین کی آخری یادگار کائنٹک انسٹالیشن ’’سیرو فی الارض‘‘ بھی شامل ہے، جو۲۰۰۹ء میں قطر فاؤنڈیشن کے لیے تیار کی گئی تھی، اور جس میں گھوڑوں کے موزیک، عباس ابن فرناس اور ڈا ونچی کی فلائنگ مشین کے مجسمے، رنگین شیشے کے گھوڑے، اور پرانے ماڈل کی کاریں شامل ہیں جو زمین پر انسانیت کی ترقی کی عکاسی کرتی ہیں۔میوزیم ایک۳۶۰؍ درجہ تجربہ فراہم کرتا ہے، جس میں سامعین، اسکولوں اور کالجوں کو مفت مدعو کیا جاتا ہے کہ وہ مصور کے ذہن میں جھانکیں۔حسین نے اردو شاعری بھی لکھی، ان کی شاعری میوزیم کی لائبریری میں بھی دستیاب ہوگی۔
بعد ازاں حسین کے کاموں کا ہندوستان سے تعلق ابھی ختم نہیں ہوا، میوزیم کے اندرونی ڈیزائن کی ذمہ داری دہلی کی رومی کھوسلا ڈیزائن اسٹوڈیوز کو سونپی گئی ہے، جس کی سربراہی مارٹنڈ کھوسلا کر رہے ہیں، جو لندن کے آرکیٹیکچرل ایسوسی ایشن اسکول آف آرکیٹیکچر کے گریجویٹ ہیں۔