Inquilab Logo Happiest Places to Work

قاضی اطہر مبارکپوری ؒ نے بطور معلم ، مورخ، مصنف اور صحافی کامیاب زندگی گزاری

Updated: July 14, 2025, 10:34 AM IST | Dr. Muhammad Ilyas Al Azmi | Mumbai

قاضی صاحب نے معلم ، مورخ، مصنف اور صحافی کی حیثیت سے انتہائی فعال زندگی گزاری اور علم و ادب ، خاص طور سے تاریخ کے میدان میں جو کچھ کر دکھایا اسے معجزے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

Qazi Athar Mubarakpuri. Photo: INN
قاضی اطہر مبارکپوریؒ۔ تصویر: آئی این این

عزت وشہرت، نام و نموداور صلہ و ستائش سے بے پروا ہو کر جن لو گوں نے علم و ادب اور تاریخ و تہذیب کی خدمات انجام دیں، ان میں ایک بہت نمایاں نام مورخ اسلام مولانا قاضی اطہر مبارک پوری ؒ (۱۹۱۶۔۱۹۹۶ء)کا بھی ہے،نا مساعد حالات سے نبرد آزما ہونا اور پھر کامیابی سے ہمکنار ہونا قاضی صاحب کی کتاب زندگی کا سب سے تابناک باب ہے۔قاضی صاحب نے معلم ، مورخ،  مصنف اور صحافی کی حیثیت سے انتہائی فعال زندگی گزاری اور علم و ادب ، خاص طور سے تاریخ کے میدان میں جو کچھ کر دکھایا اسے معجزے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
قاضی صاحب ۷؍ مئی ۱۹۱۶ء کوضلع اعظم گڑھ کے مشہور قصبہ مبارک پور میں پیدا ہوئے ، ابتدائی تعلیم محلہ کے مکتب میں حاصل کی ، پھرمبارک پور کی مشہور درسگاہ احیاء العلوم میں داخل ہوئے، فراغت کے بعد دورہ حدیث کیلئے مدرسہ شاہی مرادآباد کا رخ کیا۔ احیاء العلوم میں مولانا مفتی یٰسین صاحب مبارکپوری اور مولانا شکر اللہ مبارک پوری سے خاص  طور سے فیض یاب ہوئے۔تدریسی زندگی کا آغاز مدرسہ احیاء العلوم کی مدرسی سے ہوا ، ترک ملازمت کے بعد وہ ملک کے متعدد اخبارات و رسائل میں کام کرتے ہوئے بمبئی پہنچے جہاں روزنامہ انقلاب سے وابستہ ہو گئے اور پھر پوری زندگی وہیں گزار دی۔ عروس البلاد علم کش شہر قرار دیا جا تا ہے لیکن اسی شہر میں قاضی صاحب نے سب سے الگ دکان کھولی ، اور ایک گوشے میں بیٹھ کر بڑے بڑے علمی کارنامے انجام دیئے، جس کے ذکر کے بغیر ہماری تہذیبی تاریخ مکمل نہ ہو سکے گی۔
قاضی صاحب کو اردو کے ساتھ عربی و فارسی پر ماہرانہ دستگاہ حاصل تھی۔ یہی وجہ  ہے کہ انہوں نے ان زبانوں سے بھر پور فائدہ اٹھایا، اردو ہی کی طرح انہیں عربی لکھنے پر بھی قدرت حاصل تھی جیسا کہ ان کی عربی تصنیفات رجال السند والہند، عقد الثمین اور الہند فی العہدالعباسین سے اندازہ ہوتا ہے۔   ان کی علمی، تعلیمی اور تاریخی تصنیفات کی تعداد ۲؍درجن سے زیادہ ہے، انقلاب ، معارف اور برہان میں شائع شدہ علمی و تحقیقی مقالات کی تعداد بھی سو سے کم نہ ہو گی۔ اس قدر بلند رتبہ تحقیقاتی کام انجمن اور ادارے انجام دیتے ہیں ، کسی فرد واحد کا یہ کام نہیں تاہم قاضی صاحب نے تن تنہا یہ کارنامے انجام دیئے جن  سے ان کی خدمات کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
قاضی صاحب کے علمی کارناموں میں بڑا تنوع ہے لیکن ان کے دو کام علم وادب کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔ عرب و ہند کے تعلقات اور خطہ پورب کی علمی وتعلیمی تاریخ کی تدوین ان کے دو بڑے عظیم الشان کارنامے ہیں ان دو نوں موضوعات کا ابتدائی خاکہ علامہ سید سلیمان ندوی نے بنایا تھا۔

ان کی مشہور کتاب عرب  و ہند کے تعلقات جو اپنے موضوع پر پہلی کاوش تھی اور حیات شبلی میں خطہ پورب کی اجمالی تاریخ لکھ کر انہوں نے ان موضوعات پر لکھنے کا آ غاز کیا۔ قاضی صاحب کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے ان کو مستقل موضوع تحقیق قرار دیا اور ایک عرصہ تک بلکہ مدۃ العمر ان دونوں موضوعات کے مطالعہ و تحقیق میں مصروف رہے اور اس کے نئے نئے گوشے اور پہلو تلاش کرتے رہے۔ دیار پورب کسی زمانہ میں شیراز اور یونان سے کم نہ تھا تاہم گردش ا یام کے گرد وغبار نے اس کے روشن ماضی کی تاریخ دھند لادی تھی، قاضی صاحب نے دیار پورب میں علم اور علماء لکھ کر اس کی عظمت رفتہ کی نشاندہی کی اس سے پہلی بار اندازہ ہوا کہ خطہ پورب علم و ادب کا کیسا لہلہاتا چمن تھا جسے خزاں کی گرم ہواؤں نے اجاڑ دیا۔  مبارک پور اور اس کا اطراف کیسے کیسے اہل علم و دانش اور ارباب فضل وکمال کا مرکز تھا اور انہوں نے علم وفن میں کیسے کیسے گراں قدر کار نامے انجام دئے اور ان کی بدولت ہندوستان میں مسلمانوں کے عزت و وقارمیں کس قدر اضافہ ہوا یہ تمام باتیں پردہ خفا میں تھیں اللہ تعالیٰ قاضی صاحب کی قبر کو نور سے بھر دے کہ انہوں نے انتہائی محنت اور جاں کاہی سے اس خطہ کے خد و خال نہ صرف واضح کئے بلکہ اس کے روشن اور تابندہ نقوش کی پوری جھلک دکھادی ۔
تیسرا اہم موضوع قاضی صاحب کی تصنیفات کا تعلیمی ہے ۔ تعلیم و تربیت سے انہیں بڑی دلچسپی تھی چنانچہ اس موضوع پر مقالات کے علاوہ ایک اہم کتاب خیر القرون کی درسگاہیں لکھ کر طالبان علم و فن میں مہمیز پیدا کرنے کی کوشش کی۔  انہوں نے اپنی خود نوشت قاعدہ بغدادی سے صحیح بخاری تک بھی اسی مقصد کے پیش نظر قلم بند کی۔خود نوشت کا دوسرا حصہ کاروان حیات بھی در اصل اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔اصلاً ان کی زندگی تعلیم وتعلّم میں گزری، جس میں طلبہ کیلئے بڑا درس وعبرت کا سامان ہے ۔ ان کی کتاب ’’تبلیغی تعلیمی سرگرمیاں عہد سلف میں‘‘ بھی اسی سلسلہ کی ایک کاوش ہے لیکن اس سلسلہ کی سب سے اہم کاوش ان کی معرکہ آرا کتاب ’’ہر پیشہ اور ہر طبقہ میں علم و علماء ‘‘ہے۔  اس میں انہوں نے تاریخ و رجال کی صدہا کتابوں سے مختلف علوم و فنون اور مختلف پیشہ و طبقہ کے اہل علم اور ان کے علمی کمالات کے حالات و واقعات جمع کئے ۔قاضی صاحب کی تصنیفات کا ایک اہم موضوع مسلم معاشرے میں پھیلی کج رویوں کی نشاندہی اور اصلاح تھا چنانچہ ان کی کتاب اسلامی شادی ، اسلامی نظام زندگی اور مسلمان ، افادات حسن بصری وغیرہ کے ذریعہ قاضی صاحب نے معاشرتی اصلاح کا فریضہ انجام دیا۔
  ان کے کارناموں سے بڑھ کر ان کی شخصیت تھی جس میں بلا کی جاذبیت اور کشش تھی۔ وہ بڑے خاکسار ، وضع دار اور انکساری پسند تھے۔ ان میں علم و فضل کا پندار نہ تھا، انتہائی سادہ زندگی بسر کی ، وہ خلوص و شرافت کے مجسم پیکر تھے۔  وہ ہر طبقہ میں یکساں مقبول تھے۔وہ علماء میں جس قدر محبت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے دانشوروں میں بھی  اسی درجہ مقبول تھے۔ اہل علم سے علمی ، عوام سے عوامی اور طلبہ سے تعلیمی گفتگو کرتے اور ہر شخص کے ذہن ومزاج کا خیال رکھتے، بڑوں کے ساتھ خوردوں سے بھی محبت سے پیش آتے، ان کی حوصلہ افزائی کرتے ، مفید مشورے دیتے ، راقم سے بھی محبت کا معاملہ کرتے، جب جب ان سے ملاقات ہوئی نیا عزم و حوصلہ ملا ۔۱۴؍ جولائی ۱۹۹۶ء میں ان کا انتقال ہوا تو راقم  السطور سفر میں تھا، افسوس کہ ایک مٹھی مٹی بھی نہ دے سکا،جس کا قلق اب تا زندگی رہے گا،اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK