Inquilab Logo

کورونااور معیشت پرراہل گاندھی اور ماہر معاشیات محمد یونس کی گفتگو

Updated: August 01, 2020, 8:46 AM IST | New Delhi

بنگلہ دیش میں گرامین بینک کے بانی محمد یونس نے کہا کہ کورونا نے ہمیں معاشیات اور سماجیات پر دوبارہ سوچنے کا موقع فراہم کیا ہے، مصنوعی ذہانت کی مخالفت کی ۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

کانگریس لیڈر راہل گاندھی اور بنگلہ دیش کے ماہر معاشیات اور نوبل انعام یافتہ پروفیسر محمد یونس کے درمیان کورونا اور معیشت کے انتہائی اہم موضوع پر تبادلہ خیال ہوا۔ اس بات چیت کے دوران معیشت کی بدحالی کے ساتھ ساتھ کورونا بحران پر بھی پروفیسر محمد یونس نے کئی نکات راہل گاندھی کے سامنے رکھے۔ کانگریس لیڈر کے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ہم نے معاشی، مالی نظام میں مغربی طریقے کو اختیار کر رکھا ہے۔ اس لیے ہم نے اس شعبہ میں ہندوستان بنگلہ دیش جیسے ممالک کی داخلی صلاحیت کے بارے میں نہیں سوچا۔ مگر اب ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم مغربی معیشت سے چھٹکارہ حاصل کریں اور اپنی اپنی معیشتوں کو نئے سرے سے سنواریں ۔ ‘‘ محمد یونس کے مطابق ہمارے لوگوں کے پاس معیشت کے لئے کئی بہتر خیال ہیں ۔ سوچنےکا تخلیقی طریقہ ہے۔ہمیں انہیں موقع دینا ہو گا تاکہ یہ خطہ ایک نئی معاشی طاقت بن سکے۔محمد یونس نے معاشی پالیسیوں اور شہری و دیہی معیشت کے تعلق سے کئی باتیں کہیں جو بہت اہمیت رکھتی ہیں ۔ 
  محمد یونس نے کہا کہ کورونا وبا نے دنیا کوجتنا بڑا بحران دیا ہے اس کے سنگین نتائج تو آنے والے دنوں میں دیکھنے کو ملیں گے لیکن سب سے بڑی بات یہ کہ اس کورونا دور نے ہمیں سوچنے کا نیا موقع بھی فراہم کیا ہے۔دیہی بینک کے بانی اور نوبیل انعام یافتہ پروفیسر محمد یونس نے کانگریس کےسابق صدر راہل گاندھی کے ساتھ بات چیت کے دوران کہاکہ کورونا نے ہمیں سوچنے کا موقع فراہم کیا ہے کہ یا تو ہم اس خطرناک دنیا میں جائیں جو خود کو تباہ کررہی ہے یا ہم ایک نئی دنیا کی تعمیر کی طرف جائیں جہاں پر گلوبل وارمنگ، صرف سرمایہ پر مبنی سماج اور بے روزگاری نہیں ہوگی۔
چند اہم باتیں 
پروفیسر یونس نے کہاکہ گلوبل وارمنگ کے ساتھ اس دنیا میں کیوں واپس جانا ہے جہاں مصنوعی ذہانت(آر ٹی فیشیل انٹیلی جنس) ہر کسی کا روزگار چھین رہی ہے۔آئندہ کچھ دہائیوں میں وسیع پیمانہ پربے روزگاری پیدا ہونے والی ہے۔ ہمیں اے آئی پر بڑھتا ہوا انحصار ختم کرنا ہو گا ۔ 
 ہمیں مہاجرمزدوروں کی پہچان کرنی ہوگی۔ معیشت ان لوگوں کو نہیں پہچانتی ہے۔ وہ اسے غیررسمی شعبہ کہتے ہیں ، جس کا مطلب ہے کہ ہمارا ان سے کچھ لینا دینا نہیں ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ معیشت کا حصہ ہیں ۔
 ہمیں ایک متوازی معیشت، خود مختار معیشت کی حیثیت سے دیہی شعبہ کی معیشت تعمیر کرنی ہوگی اور وہ بھی تکنالوجی کی مدد سے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK