معروف صحافی عبدالسمیع بوبیرے کا انتقال ہوگیا۔ ۲۵؍ جون بدھ کی صبح جس وقت انہوں نے اپنی رہائش گاہ پر آخری سانسیں لیں، ان کی عمر تقریباً ۸۰؍برس تھی۔
EPAPER
Updated: June 26, 2025, 2:17 PM IST | Saeed Ahmad Khan | Mumbai
معروف صحافی عبدالسمیع بوبیرے کا انتقال ہوگیا۔ ۲۵؍ جون بدھ کی صبح جس وقت انہوں نے اپنی رہائش گاہ پر آخری سانسیں لیں، ان کی عمر تقریباً ۸۰؍برس تھی۔
معروف صحافی عبدالسمیع بوبیرے کا انتقال ہوگیا۔ ۲۵؍ جون بدھ کی صبح جس وقت انہوں نے اپنی رہائش گاہ پر آخری سانسیں لیں، ان کی عمر تقریباً ۸۰؍برس تھی۔ وہ کچھ وقت سے علیل تھے ، علاج جاری رہا اور افاقہ بھی ہوتارہا، بالآخر وقت موعود آن پہنچا اوران کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ تدفین بدھ کو مغرب کی نمازکے بعد مرین لائنس بڑا قبرستان میںعمل میں آئی۔ تجہیز و تکفین میں بڑی تعداد میں شناساؤں نے شرکت کی۔ پسماندگان میں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں۔
مرحوم کے صاحبزادے احمر بوبیرے نے نمائندۂ انقلاب کو بتایا کہ ’’والد صاحب کی طبیعت زیادہ خراب نہیں تھی۔ صبح ۵؍ بجے انہوں نے ہلکا ناشتہ کیا پھر سوگئے۔ تقریباً ۸؍بجے جب ہم نے انہیں جگایا تو وہ بیدار نہ ہوئے، ان کی روح پرواز کرچکی تھی۔ ‘‘عبدالسمیع بوبیرے کا تعلق کوکن کے پین علاقے سے تھا۔ان کے والد ِگرامی عبدالحمید بوبیرے اپنے وقت کے ممتاز صحافی تھے اور’’صبح ِامید‘‘نکالا کرتے تھے۔ اس اخبار نے کافی شہرت ومقبولیت حاصل کی۔ خود عبدالسمیع بوبیرے اس کی ادارت سے وابستہ رہے۔ بعد ازاں انہوں نے’’شامنامہ‘‘ نام سےویکلی اخبار بھی جاری کیا جو کئی برس تک جاری رہا۔ وہ روزنامہ انقلاب سے بھی وابستہ رہے اور’درسگاہوں کی سیر ‘کے عنوان سے کالم لکھا کرتے تھے۔ انہیں انڈوعرب اور ایران کی تہذیب وثقافت سے بھی دلچسپی تھی۔ اس حوالے سے وہ سال میں ایک خصوصی پروگرام کاانعقاد کیا کرتے تھے۔
عبدالسمیع بوبیرے خوش مزاج، خلیق، ملنسار اور خورد نوازی جیسے اوصاف کے حامل تھے۔ انہوں نے اپنے بعد کی نسل میں کئی نوجوانوں کی ذہنی وصحافتی تربیت کی۔ وہ پوری زندگی متحرک رہے۔ان کی کوشش رہا کرتی تھی کہ کچھ نہ کچھ کرتے رہیں جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے۔ زبان وبیان اورعلم وادب کے معاملے میں وہ کافی حساس تھے اور غلط اردو بولنے والوں کی گرفت کیا کرتے تھے۔ اسی تناظرمیں وہ اردو صحافت کے حوالے سے یہ جملہ کہ ’’اردو صحافت میں کچھ ایسے لوگ دَرآئے ہیں جن کا املا غلط جن کا جملہ غلط جو منجملہ غلط ‘‘ اکثر دہرایا کرتے تھے۔