اسرائیل کی نگراں ٹیم کے مطابق دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں اسرائیل کا بائیکاٹ دوگناہو گیا ہے، ٹیم نے کہا کہ نومبر میں یورپ میں ایسے واقعات کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی۔
EPAPER
Updated: November 25, 2025, 7:05 PM IST | Tel Aviv
اسرائیل کی نگراں ٹیم کے مطابق دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں اسرائیل کا بائیکاٹ دوگناہو گیا ہے، ٹیم نے کہا کہ نومبر میں یورپ میں ایسے واقعات کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی۔
ایک اسرائیلی رپورٹ کے مطابق، غزہ میں جنگ بندی کے باوجود بھی اسرائیل کے محققین اور تعلیمی اداروں کے خلاف تعلیمی بائیکاٹ میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔یہ رپورٹ ’’اکیڈمک بائیکاٹ آف اسرائیل مانیٹرنگ ٹیم‘‘ کے ذریعے تیار کی گئی ہے، جس کی بنیادتل ابیب میں یونیورسٹی صدور کی کمیٹی نے رکھی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’اسرائیل کی یورپ میں منفی شبیہہ اتنی گہرائی تک جا چکی ہے کہ محض سیاسی اقدامات عوامی رائے کو بدلنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔‘‘ عبرانی اخبار ہاریٹز کے اقتصادی ضمیمے ’’دی مارکر‘‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی نسل کشی جنگ کے جنگ بندی کے باوجود اسرائیل کے بائیکاٹ میں کوئی کمی نہیں آئی۔ بلکہ، اس کے برعکس ہوا،’’ اداروں اور انفرادی اسکالرز کی طرف سے دائر مقدمات کی تعداد میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: اب شام کے علاقے اسرائیل کے نشانے پر
ٹیم نے خبردار کیا کہ تعلیمی بائیکاٹ کی بڑھتی ہوئی تعداد اسرائیلی اعلیٰ تعلیم کو ’’خطرناک علاحدگی‘‘ کی طرف دھکیل سکتی ہیں جو اس کے بین الاقوامی مقام کے لیے ایک حقیقی اور حکمت عملی کے لحاظ سے سنگین خطرہ ہے۔رپورٹ کے مطابق، نومبر تک اسرائیلی اداروں پر مکمل تعلیمی بائیکاٹ عائد کرنے والی یورپی یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھ کر۱۰۰۰؍ ہو گئی ہے۔ اس میں یورپی اسکالرز کے اسرائیلی ہم منصب اور یونیورسٹیوں کے ساتھ تعاون سے انکار کی نئی مثالیں بھی دی گئی ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ۲۰۲۵ء میں یورپی یونین کے’’ ہورائزن یورپ فنڈ‘‘، جو اسرائیل کے لیے سائنسی تحقیق کی امداد کا اہم ذریعہ ہے، کی طرف سے اسرائیلی اسکالر کو دیے جانے والے تحقیقی گرانٹس میں کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ کمی اسرائیلی اسکالر کے ہورائزن فنڈنگ حاصل کرنے والے بین الاقوامی تعاون کے منصوبوں سے باہر کیے جانے سے وابسطہ ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل: ذہنی صحت کا سنگین بحران، ۲۰؍ لاکھ افراد مدد کے منتظر
رپورٹ کے مطابق، بین الاقوامی تحقیقی گروپس سے خارج کرنے کے نتیجے میں۵۷؍ فیصد انفرادی محققین متاثر ہوئے ہیں، ، جبکہ۲۲؍ فیصد یورپی اور اسرائیلی یونیورسٹیوں کے درمیان ادارہ جاتی بائیکاٹ سے متعلق ہیں۔۷؍ فیصد پروفیشنل ایسوسی ایشن کے عائد کردہ بائیکاٹ سے تعلق رکھتے ہیں، اور۱۴؍ فیصد بین الاقوامی پروگراموں جیسے طلبہ کے تبادلے اور پوسٹ ڈاکٹورل شراکت داریوں کے معطلی سے متعلق ہیں۔رپورٹ نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ رجحان جاری رہنے کا امکان ہے، اور کہا کہ بائیکاٹ تحریک ’’اسرائیلی تعلیمی اداروں کے ساتھ طویل عصر تک جاری رہے گی اور بغیر بڑے علاقائی اور جیو پولیٹیکل تبدیلیوں کے کم نہیں ہو گی۔‘‘