Updated: November 24, 2025, 9:56 PM IST
| Tel Aviv
يديعوت أحرونوت کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل شدید ذہنی صحت کے بحران کا سامنا کر رہا ہے جہاں ۲۰؍ لاکھ سے زائد افراد مدد کے محتاج ہیں۔ ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد ذہنی بیماریوں، ڈپریشن، اضطراب اور پی ٹی ایس ڈی کے کیسز میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ معالجین کی شدید کمی صورتِ حال کو مزید خطرناک بنا رہی ہے۔
يديعوت أحرونوت کے مطابق اسرائیل اس وقت ’’ذہنی صحت کی سونامی‘‘ کا سامنا کر رہا ہے، جس میں تقریباً ۲۰؍ لاکھ افراد کو فوری مدد کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معاشرتی بگاڑ، بڑھتی ہوئی ذہنی دباؤ کی علامات اور نشے کے بڑھتے ہوئے رجحان نے صورتحال کو تشویشناک بنا دیا ہے۔ جمعہ کو شائع ہونے والی ایک تفصیلی رپورٹ میں ذہنی صحت کے ماہرین نے بتایا کہ ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد ذہنی امراض کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب ڈاکٹروں اور طبی عملے کی شدید کمی نے بحران مزید بڑھا دیا ہے جسے ماہرین تباہ کن نتائج کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:غزہ بحران کے درمیان ہندوستان نے سب سے بڑا کاروباری وفد اسرائیل بھیجا، آزاد تجارتی معاہدے پر زور
حالیہ ہفتے میں دماغی صحت کی آٹھ بڑی تنظیموں کے اتحاد نے حکومت کو فوری انتباہ جاری کیا۔ اتحاد نے موجودہ حالات کو ’’گہرے اور وسیع پیمانے پر پھیلتے ذہنی مرض‘‘ سے تعبیر کیا اور صورتحال کو سنگین قرار دیا ہے۔ گروپس نے اس بحران کو ’’تباہ کن‘‘ قرار دیتے ہوئے فوری اور بڑے پیمانے پر سرکاری مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔ اتحاد کے مطابق اسرائیلی معاشرہ اس وقت وسیع نفسیاتی اضطراب میں مبتلا ہے۔ مسلسل تنازعات اور صدمے کے باعث عوام میں افسردگی، بے چینی، تکلیف دہ خیالات اور شدید ذہنی تھکن میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ خاندان اور کمیونٹیز متاثر ہو رہی ہیں جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ بحران اب بھی اپنے عروج پر نہیں پہنچا ہے، لیکن فوری طور پر کچھ نہیں کیا گیا تو حالات بے قابو ہوجائیں گے۔
ان تنظیموں نے ’’گہرے اور طویل مدتی صدمے‘‘ کے خدشات کا اظہار کیا ہے جو آئندہ نسلوں کے ذہنی اور سماجی استحکام پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اتحاد کے مطابق ’’اسرائیلی معاشرے کی نفسیاتی حالت اپنی بدترین سطح پر آ چکی ہے۔‘‘ گروپس کے چونکا دینے والے اعدادوشمار کے مطابق ڈپریشن اور اضطراب کی تشخیص ۲۰۱۳ء کے مقابلے ۲۰۲۴ء میں دو گنا ہوچکی ہے۔ پی ٹی ایس ڈی معاملات میں اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد ہر ماہ ۷۰؍ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تقریباً نصف سے زائد اسرائیلی مسلسل غم اور اداسی کی علامات کے متعلق اطلاع دے رہے ہیں۔ ذہنی صحت کی ہیلپ لائنوں پر کالیں چھ گنا بڑھ چکی ہیں۔نفسیاتی ادویات کا استعمال دوگنا ہو چکا ہے۔ جنگ کے دوران نیند کی خرابیوں کے معاملات میں ۱۹؍ فیصد اضافہ ہوا۔
کلیلیت ہیلتھ سروسیز اور میئرس جے ڈی سی بروک ڈیل انسٹی ٹیوٹ کی مشترکہ تحقیق کے مطابق ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے حملوں سے متاثر ہونے والے ۵۰؍ فیصد افراد اب تک ذہنی صحت کے مسائل سے نبردآزما ہیں جبکہ عام آبادی میں سے ہر پانچواں فرد شدید ذہنی دباؤ کے باعث معمول کے کام انجام نہیں دے پا رہا ہے۔ وزارتِ صحت کے مطابق متذکرہ تاریخ کے بعد تھیراپی سیشنز میں ۲۵؍ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ قلیل مدتی سائیکو تھیراپی کے معاملات ۲۰۲۲ء کے ۳۵۰۰؍ سے بڑھ کر ۲۰۲۴ء میں ۲۰؍ ہزار تک بڑھ گئے ہیں۔ اس میں ۴۷۱؍ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق اصل اعداد و شمار رپورٹ شدہ اعداد سے کہیں زیادہ سنگین ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:سعودی عرب: مساجد کیلئے۳۱؍ ہزار نئی جز وقتی اسامیوں کی بھرتی
اس ضمن میں حیفا یونیورسٹی کے پروفیسر میرو روتھ کے مطابق کلینکس میں ڈپریشن، بے چینی، لت، ازدواجی مسائل اور بچوں میں رویوں کی بگاڑ کی شرح میں غیرمعمولی اضافہ رپورٹ ہو رہا ہے۔ ان کے مطابق ۲۰۱۸ء میں ہر ۱۰؍ میں سے ایک شخص نشے کا عادی تھا، اور اب یہ تناسب چار میں سے ایک ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ اضافہ انتہائی خوفناک ہے۔‘‘ اسرائیلی نفسیاتی اسوسی ایشن کی سربراہ ڈاکٹر مرینا کپچک نے خبردار کیا کہ ملک کو ذہنی صحت کی بحالی کیلئے فوری اور بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق درست وقت پر قدم نہ اٹھانے کی صورت میں اگلے چند برسوں میں معاشرتی، معاشی اور پیشہ ورانہ شعبوں میں سنگین نقصانات سامنے آسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:کوٹہ، راجستھان: ہندوستان کا بغیر ٹریفک سگنلز والا پہلا شہر
وزارتِ صحت نے ایک قومی منصوبے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت، ماہرین نفسیات کی تعداد میں اضافہ،ان کی تنخواہوں میں بہتری، نفسیاتی وارڈز کا اپ گریڈیشن اور گھریلو اور کمیونٹی سروسیز کی توسیع شامل ہیں۔ اس منصوبے کی لاگت ۷ء۱؍ بلین شیکل ہے۔ تاہم، سینئر ماہرین کا کہنا ہے کہ اصلاحات صرف ’’اوپری سطح کی مرمت‘‘ نہیں ہونی چاہئیں بلکہ پورے نظام کی ازسرِنو بنیادوں پر تعمیر ضروری ہے۔ اسرائیل سائیکولوجسٹ اسوسی ایشن کے چیئر یورام شلیار نے ذہنی صحت کے ناتجربہ کار معاونین کی بڑھتی تعداد پر تشویش ظاہر کی ہے جنہیں مکمل تربیت یافتہ ڈاکٹروں کے مقابلے صرف تین ماہ کی تربیت دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر الانا لیچ کے مطابق موجودہ نظام ’’مکمل طور پر مغلوب‘‘ ہو چکا ہے۔ آپ بہتے خون والے زخم پر پٹی نہیں باندھ سکتے۔ ذہنی صحت کے نظام کو بنیادی سطح سے دوبارہ تعمیر کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔‘‘