تقریباً ۲۵؍ برس سے التواء کا شکار ایک کیس پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے بامبے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ہدایت دی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں آنے والی تمام عدالتوں میں ’لینڈ لارڈ (مالک مکان)‘ اور ’ٹیننٹ(کرایہ دار) کے درمیان تنازعات کے التواء میں پڑے معاملات کا جائزہ لیں اور ایسے اقدام کریں جن سے زیادہ عرصہ سے زیر سماعت معاملےپر جلد فیصلہ آسکے۔
سپریم کورٹ آف انڈیا۔ تصویر: آئی این این
تقریباً ۲۵؍ برس سے التواء کا شکار ایک کیس پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے بامبے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ہدایت دی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں آنے والی تمام عدالتوں میں ’لینڈ لارڈ (مالک مکان)‘ اور ’ٹیننٹ(کرایہ دار) کے درمیان تنازعات کے التواء میں پڑے معاملات کا جائزہ لیں اور ایسے اقدام کریں جن سے زیادہ عرصہ سے زیر سماعت معاملےپر جلد فیصلہ آسکے۔
جسٹس سنجے کرول اور جسٹس منوج مسرا پر مشتمل ۲؍ رکنی بنچ نے چند روز قبل یہ ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم بامبے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے درخواست کرتے ہیں کہ ’لینڈ لارڈ‘ اور ’ٹیننٹ‘ کے درمیان تنازع کے زیر التواء معاملات اپنے ہاتھ میں لیں اور متعلقہ تمام عدالتوں سے تفصیلات طلب کریں کہ ایسے معاملات کتنے عرصہ سے فیصلے کے منتظر ہیں۔ اگر یہ بات سامنے آتی ہے کہ زیر التواء ایسے معاملات کی تعداد زیادہ ہے تو مناسب اقدام کئے جانے چاہئیں یا ہدایت جاری کی جانی چاہئے تاکہ ان معاملات کا جلد تصفیہ ہوسکے۔‘‘
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا ہے کہ لینڈ لارڈ اور ٹیننٹ کے درمیان تنازعات میں پیسوں کا مسئلہ ہوتا ہے اس لئے عدالتوں کا فرض ہے کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ کسی بھی فریق کو نقصان نہ ہو۔ججوں نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ جب مالک مکان اور کرایہ دار کے درمیان تنازع ہوتا ہے تو لوگ ملکیت سے بھی فائدہ نہیں اٹھا پاتے اور اس سے ہونے والی آمدنی کا بھی نقصان ہوتا ہے۔ عدالتیں قانون اور انصاف کیلئے ہوتی ہیں اس لئے ان کا فرض ہوتا ہے کہ اس طرح کے معاملات میں کسی بھی فریق کو نقصان نہ ہو اور اگر کوئی کیس زیادہ عرصہ تک زیر التواء رہتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ فریقین کو نقصان ہورہا ہے۔
اس فیصلے میں ججوں نے یہ بھی وضاحت کی کئی اگرچہ کئی معاملات میں فریقین کی وجہ سے کیس پر فیصلہ نہیں آپاتا لیکن بہت سے معاملات ایسے بھی ہیں جن پر فیصلہ نہ آنے کیلئے نظام عدلیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ تاہم اخیر میں سپریم کورٹ نے یہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پر چھوڑ دیا کہ وہ ان معاملات کے تصفیہ کیلئے کیا اقدام کرتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے ممبئی میں واقع ہرچند رائے ہائوس کی ملکیت پر ’ہندوستان آرگینک کیمیکلز لمیٹڈ‘ کے کرایہ دار کی حیثیت سے پیدا ہونے والے تنازع پر سماعت کے دوران یہ احکامات جاری کئے۔ یہ معاملہ تقریباً ۲۵؍ برس سے زیر التواء تھا جس پر سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے ملکیت کے مالک کے حق میں سنائے گئے فیصلے کو برقراررکھا۔