Inquilab Logo Happiest Places to Work

امریکہ: محمود خلیل نےاپنے کریئر کا حوالہ دے کر عدالت سےرہائی کی اپیل کی

Updated: June 06, 2025, 9:57 PM IST | Washington

امریکی شہری محمود خلیل نے اپنے بچے کی پیدائش چھوٹنے اور نوکری کے مواقع سے محرومی کا ذکر کرتے ہوئے جج سے اپنی حراست کا جائزہ لینے کی اپیل کی۔

Mahmoud Khalil Image: X
محمود خلیل ۔ تصویر: ایکس

کولمبیا یونیورسٹی کے سابق طالب علم محمود خلیل، جنہیں کیمپس پر فلسطین نواز سرگرمیوں کی وجہ سے ملک بدری کا سامنا ہے، نے اپنی مسلسل حراست کے باعث ہونے والے ’’ناقابل تلافی نقصان‘‘ کی تفصیلات پیش کی ہیں جبکہ ایک وفاقی جج ان کی رہائی پر غور کر رہے ہیں۔ خلیل نے جمعرات کو عدالت میں پیش ہونے والے دستاویزات میں کہا کہ لوئزیانا میں مہینوں تک حراست میں رہنے کے دوران انہیں سب سے شدید اور دِل دہلانے والا نقصان اپریل میں اپنے پہلے بچے کی پیدائش کے موقع پر موجود نہ رہنا تھا۔خلیل نے لکھا’’ڈیلیوری روم میں اپنی بیوی کا ہاتھ تھامنے کے بجائے، میں حراستی مرکز کے فرش پر دبکا بیٹھا تھا، جبکہ وہ اکیلے دردِ زہ میں تھیں۔ جب میں نے اپنے بیٹے کی پہلی آواز سنی تو میں نے اپنا چہرہ بازوؤں میں چھپا لیا تاکہ کوئی میرا روتا ہوا نہ دیکھ سکے۔‘‘
خلیل نے اس حراست کے ممکنہ کیریئر ختم کر دینے والے اثرات کا بھی ذکر کیا، جس میں بتایا گیا کہ آکسفیم انٹرنیشنل نے پہلے ہی پالیسی مشیر کیملازمت  واپس لے لیا ہے۔ خلیل کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ کا ویزا بھی، جو ان کے نوزائیدہ بیٹے کی دیکھ بھال میں مدد کے لیے امریکہ آنے والی تھیں، اب وفاقی جائزے کے تحت ہے۔ انہوں نے لکھا: *"شام میں اپنے سیاسی خیالات اور اپنی شناخت کی وجہ سے جس شخص کو قانونی چارہ جوئی سے بھاگنا پڑا، میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں یہاں امریکہ میں امیگریشن حراست میں ہوں گا۔ ہزاروں معصوم فلسطینیوں کے بے دریغ قتل کے خلاف احتجاج کرنے پر میرے آئینی حقوق سلب ہونے کا جواز کیا ہے؟‘‘

یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ نے ہارورڈ یونیورسٹی پر نئے بین الاقوامی طلباء کے داخلے پر پابندی لگا دی

خلیل کا ۱۳؍ صفحات پر مشتمل بیان ان کے وکلاء کی جانب سے پیش کردہ متعدد قانونی دستاویزات کا حصہ تھا، جس میں ان کی گرفتاری کے وسیع پیمانے پر منفی اثرات کو اجاگر کیا گیا تھا۔ ان کی امریکی شہری بیوی ڈاکٹر نور عبداللہ نے اپنے بیٹے کی پیدائش اور زندگی کے ابتدائی ہفتوں میں شوہر کے ساتھ نہ ہونے کے چیلنج بیان کیے۔ کولمبیا کے طلبہ اور پروفیسروں نے لکھا کہ خلیل کی گرفتاری نے کیمپس کی زندگی پر خوف طاری کر دیا ہے، جہاں لوگ احتجاج میں شرکت کرنے یا ایسے گروپوں میں شامل ہونے سے گریز کر رہے ہیں جو ٹرمپ انتظامیہ کے نقاد سمجھے جاتے ہیں۔گزشتہ ہفتے، نیو جرسی کے ایک وفاقی جج نے کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے خلیل کو ملک بدر کرنے کی کوشش آئین کی خلاف ورزی ہے۔ جج مائیکل فیربیارز نے لکھا کہ خلیل کو ملک بدر کرنے کی حکومت کی بنیادی دلیل کہ ان کے خیالات امریکی خارجہ پالیسی کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں مبہم اور من مانی کارروائیوں کا دروازہ کھول سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: امریکہ کو ہندوتوا کا مسئلہ درپیش: رٹگرز نے ہندوستان سے متعلق انتہا پسند گروپس کے خطرات سے خبردار کیا

واضح رہے کہ خلیل کو 8 مارچ کو ان کے یونیورسٹی کے اپارٹمنٹ لابی میں وفاقی امیگریشن اہلکاروں نے حراست میں لیا تھا—غزہ میں اسرائیلی جنگ کے خلاف کیمپس احتجاج میں شامل طلبہ پر ٹرمپ کی سخت کارروائی کے تحت پہلی گرفتاری تھی۔ خلیل کی گرفتاری کے چند دن بعد، ٹرمپ کی دھمکی عملی شکل میں آئی جب جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے ایک ہندوستانی محقق بدر خان سوری کو حراست میں لیا گیا۔سوری کی گرفتاری کے بعد، حکام نے ایک اور فلسطین نواز طالب علم مومودو تال کو  ہتھکڑی لگوانے کا حکم دیا۔۲۵؍ مارچ کو، کولمبیا یونیورسٹی کی طالبہ یونسیو چنگ نے بتایا کہ انہوں نے گزشتہ بہار ایک فلسطین نواز احتجاج میں شرکت پر امریکہ سے ملک بدری روکنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے۔ اسی روز۲۵؍ مارچ کو، ٹفٹس یونیورسٹی کی پی ایچ ڈی طالبہ رمیزا اوزترک کو دن دہاڑے امریکی حکام نے غزہ میں اسرائیلی قتل عام پر تنقید کرنے پر اغوا کر لیا۔۱۴؍ اپریل کو، حکام نے محسن مہدوی کو شہریت کے انٹرویو کے دوران حراست میں لیا، جنہیں۳۰؍ اپریل کو رہا کر دیا گیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK