بستیوں کی شناخت مشکل، ۲۰۔۲۰؍ کلومیٹر کا پیدل سفر کرکے رہائش گاہوںتک پہنچنے والے افراد کو مکان کی جگہ ملبے کے علاوہ کچھ نہیں ملا، ۹۲؍ فیصد عمارتیں تباہ ہوچکی ہیں۔
غزہ میں لوگ اپنے اُن آشیانوں کی طرف لوٹ رہے ہیں جو تباہ ہوچکے ہیں۔ تصویر: اے پی / پی ٹی آئی
غزہ (ایجنسی): غزہ میں جنگ ختم ہوچکی ہے مگر اس نے اپنے پیچھے جو تباہی چھوڑی ہےاس سے نکلنے میںااقوام متحدہ کے نمائندوں کے مطابق دہائیاں لگ جائیں گی۔لوگ جوق درجوق کہیں پیدل تو کہیں گاڑیوں میں اُن بستیوں کی طرف لوٹ رہے ہیں جہاں ان کے گھر ہوا کرتے تھے مگر وہاں پہنچنے کے بعد انہیں ملبے کے علاوہ کچھ نہیں مل رہا۔ غزہ کی ۹۲؍ فیصد عمارتیں تباہ یا متاثر ہوچکی ہیں۔ عالم یہ ہے کہ اپنا گھر ڈھونڈنا تو دور کی بات ہے بستیوں کی شناخت بھی مشکل ہے۔
بستیاں مٹی کے ڈھیر میں تبدیل
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ہزاروں خاندان غزہ شہر کی طرف واپس جا رہے ہیں جو کبھی ان کی زندگی کا مرکز ہوا کرتا تھا۔مگر اب انہیں وہاں تباہی کے سوا کچھ نہیں مل رہا۔ یہاں پہنچنے والے افراد کے مطابق ’’زندگی کے آثار مٹ چکے ہیں۔‘‘ غزہ کا منظرنامہ گہرے گڑھوں، تباہ شدہ عمارتوں اور ملبے سے بھرا ہوا ہے۔ غزہ کا شہری انفراسٹرکچر خاص طور پر ان علاقوں کا جہاں اسرائیلی فوج نے زمینی کارروائیاں کیں تقریباً پوری طرح تباہ ہو چکا ہے۔ مہینوں اپنے گھروں سے دور عارضی پناہ گاہوں کی تلاش میں بھٹکتے رہنےوالے افراد کا کہا کہنا ہے کہ ’’اس پیمانے کی تباہی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔‘‘سب سے زیادہ دل خراش بات یہ ہے کہ مقامی لوگ ملبے میں سے لاشیں نکال رہے ہیں۔
’’ جو دیکھ رہے ہیں وہ ناقابل یقین ہے‘‘
شمالی غزہ کے امدادی کارکنوں نے خبردار کیا ہے کہ تباہ شدہ علاقوں میں بم اور بارودی مواد موجود ہو سکتا ہے، جو واپس آنے والے شہریوں کیلئے خطرناک ہے۔امجد شاوا جو فلسطینی امدادی تنظیم کے سربراہ ہیں، نے اندازہ لگاتے ہوئے بتایا کہ ’’۱۵؍ لاکھ بے گھر فلسطینیوں کو عارضی طور پر ٹھہرانے کیلئے کم از کم ۳؍ لاکھ خیموںکی ضرورت ہے۔‘‘۳۷؍ سالہ رامی محمد علی جو اپنے بیٹے کے ساتھ ۱۵؍ کلومیٹر پیدل چل کر دیر البلاح سے غزہ سٹی پہنچے ہیں، نے فون پر بتایاکہ ’’ہم جو تباہی دیکھ رہے ہیں اس پریقین نہیں آ رہا۔ ‘‘ہم غزہ سٹی واپس آ کر خوش ہیں، مگر دل تباہی دیکھ کر رنجیدہ ہے۔ہر جگہ انسانی باقیات موجود ہیں۔‘‘
’’ یوں ہی موت وزیست کے بیچ رہنا ہے‘‘
حسین کارسوعابے گھر فلسطینی صحافی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ غزہ شہر واپس آکر اپنے مکان کی تباہی دیکھنے کے بعد وہ صدمے سے نڈھال ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’’نہ دروازے بچے ہیں، نہ کھڑکیاںکچھ بھی نہیں بچا۔ غزہ کی تعمیر نو میں بہت وقت لگے گا۔یہ جلد نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں طویل عرصے تک موت وزیست کے عالم میں رہنا ہوگا۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ’’میرے ساتھ بچے ہیں، وہ اسکول جانا چاہتے ہیں۔ شاید خیموں اور عارضی کیمپوں میں اسکول بنیں مگر یہ سب جلد نہیں ہوگا ۔‘‘
’’ سب کچھ نئے سرے سے بنانا ہوگا‘‘
ریم زیدیہ نے الجزیرہ سے گفتگو کے دوران بتایا کہ ’’ہم واپس آئے، مگر کچھ نہیں ملا۔ شہر ملبہ بن چکا ہے۔ سب کچھ تباہ ہوگیاہے۔‘‘انہوں نے مزید بتایا کہ’’ لوگ مایوسی اور بے بسی کے عالم میں سڑکوں پر گھوم رہے ہیں۔ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ یہ سب کیا ہوگیا، سمجھ نہیں آ رہا کہ اب کیا کریں۔‘‘ رپورٹر کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ’’آپ ایسے شخص سے بات کر رہے ہیں جودو سال تک جاری رہنے والی نسل کشی میں زندہ بچ گیا۔ہم سب کچھ کھو چکے ہیں۔ ہمیں سب کچھ دوبارہ بنانا ہوگا۔‘‘
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے حق رہائش بالاکرشنن راج گوپال نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو فوری طور پر غزہ میں خیمے اور عارضی رہائش بھیجنے کی اجازت دینی چاہیے، کیونکہ شمالی غزہ واپس جانے والے فلسطینیوں کے مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔
غزہ کی تباہی اعدادوشمار کے آئینہ میں
دو سال تک جاری رہنےوالی نسل کشی میں ۶۷؍ ہزار سے زائد افراد شہید ہوئے۔ جوں جوں ملبہ ہٹایا جارہاہے،اس میں سے لاشیں نکلنے کا عمل بھی جاری ہے۔
ایک لاکھ ۷۰؍ ہزار افراد زخمی ہوئے، جن میں سے ہزاروں کو طویل علاج کی ضرورت ہے۔
کُل ۳۸؍ اسپتال اور درجنوں طبی مراکز تباہ ہوگئے یا پھر بند ہو چکے ہیں۔
ہر چار میں سے ایک بچہ شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔
غزہ کے ۹۶؍ فیصد خاندانوں کوپینے کیلئے خاطر خواہ پانی میسر نہیں ہے۔
کم وبیش۳؍لاکھ مکان ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔
۶۷۰؍ اسکول اور۱۶۵؍تعلیمی ادارے تباہ ہو گئے ہیں۔