ایک نے ۲۵؍ فیصد سے زائدمنافع کمایا جبکہ دوسرے نے ۴۰؍ فیصد ٹیکس وصولا مگر منافع اور ٹیکس کے بعد آدمی تک پہنچتے پہنچتے ایندھن مہنگا ہوچکا ہوتاہے۔
EPAPER
Updated: August 14, 2025, 1:02 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi
ایک نے ۲۵؍ فیصد سے زائدمنافع کمایا جبکہ دوسرے نے ۴۰؍ فیصد ٹیکس وصولا مگر منافع اور ٹیکس کے بعد آدمی تک پہنچتے پہنچتے ایندھن مہنگا ہوچکا ہوتاہے۔
گزشتہ۳؍سال سے ہندوستان روس سے خام تیل۵؍ سے۳۰؍ ڈالر فی بیرل کے ڈسکاؤنٹ پر خرید رہا ہے۔’’منی لائف‘‘ کی رپورٹ کے مطابق اس ڈسکاؤنٹ کا۶۵؍فیصد فائدہ ریلائنس جیسی نجی اور انڈین آئل نیز بھارت پیٹرولیم جیسی سرکاری کمپنیوں کو ملا جبکہ حکومت کو۳۵؍فیصد فائدہ ہوا۔ عام آدمی کے حصے میں کچھ بھی نہیں آیا۔
تیل کی قیمتیں کاغذ پر ڈی ریگولیٹڈ (حکومت کے کنٹرول سےآزاد) ہیں لیکن یہ قیمتیں حکومت اور تیل کمپنیوں کے کنٹرول میں ہی ہیں۔ حکومت کو ٹیکس سے مستحکم آمدنی چاہیے اور تیل کمپنیاں پرانے ایل پی جی سبسیڈی کے نقصان کا حوالہ دے کر اپنے منافع کو جائز ٹھہراتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ سستے تیل کا فائدہ کمپنیوں اور حکومت کے خزانے میں جا رہا ہے، عام شہریوں تک نہیں پہنچ رہا ہے۔ مرکز ی حکومت دہلی میں پیٹرول پر۲۱ء۹۰؍ روپے فی لیٹر اور ڈیزل پر۱۷ء۸۰؍ روپے فی لیٹر ایکسائز ڈیوٹی وصول کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ریاستی حکومتیں ویلیو ایڈیڈ ٹیکس لگاتی ہیں۔ مجموعی طور پر، پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت کا۴۰؍ فیصد سے زیادہ حصہ ٹیکس ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اپریل۲۰۲۵ءمیں ایکسائز ڈیوٹی میں۲؍روپے فی لیٹر کے اضافہ سے مرکز کو اضافی۳۲؍ہزار کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔ حکومت کیلئے یہ ٹیکس آمدنی کا مستحکم اور قابلِ بھروسہ ذریعہ ہے۔ سستے تیل کا فائدہ صارفین کو دینے کے بجائے حکومت یہ پیسہ اپنے خزانے میں رکھ کردوسرے اخراجات پورے کر رہی ہے۔کمپنیوں کے منافع کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ ۲۵-۲۰۲۴ء میں تینوں سرکاری تیل کمپنیوں نے کم منافع کمایا تب بھی ۳۳؍ ہزار ۶۰۲؍ کروڑ منافع ہوا جبکہ ۲۴-۲۰۲۳ء میں ان کا منافع ۸۶؍ ہزار کروڑ تھا۔