تفصیلی فیصلہ کے مطابق فارینسک ماہر نے جانچ کے بجائے صرف اندازہ سے کہا تھا کہ بم موٹر سائیکل میں نصب کیا گیا تھا، اے ٹی ایس اور این آئی اے کی تفتیش میں کئی تضاد
EPAPER
Updated: August 03, 2025, 8:13 AM IST | Shahab Ansari | Mumbai
تفصیلی فیصلہ کے مطابق فارینسک ماہر نے جانچ کے بجائے صرف اندازہ سے کہا تھا کہ بم موٹر سائیکل میں نصب کیا گیا تھا، اے ٹی ایس اور این آئی اے کی تفتیش میں کئی تضاد
مالیگائوں میں ۲۰۰۸ء میں ہونے والے بم دھماکہ کے کیس سے بھگوا خیمہ کے ملزمین کو بری کرنے کے ایک ہزار ۳۶؍ صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کیس کے ملزمین کو کلین چٹ دے کر نہیںبلکہ شبہ کا فائدہ دیتے ہوئے بری کیا گیا ہے۔تفتیشی ایجنسیوں کے آپسی تضاد، اہم گواہوں کے بیان سے منحرف ہونے کے ساتھ تفتیش کاروں پر ٹارچر کا الزام عائد کرنے اور استغاثہ کے ذریعہ اہم گواہوں کو عدالت نہ بلانے سے ملزمین کو فائدہ پہنچا۔یاد رہے کہ مقامی پولیس کے پاس سے اس کیس کی تفتیش پہلے اے ٹی ایس کو سونپی گئی تھی اور بعد میں اسے این آئی اے کے سپرد کردیا گیا۔ این آئی اے نے اپنے طور پر اس کیس کی مزید تفتیش کی تھی اور کئی ایسی چیزیں ریکارڈ پر لائیں جو اے ٹی ایس کی تفتیش سے میل نہیں کھاتیں۔ جج اے کے لاہوٹی نے تفتیشی ایجنسیوں کے آپسی تضاد کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنے فیصلہ میں ایک جگہ کہاہے کہ اے ٹی ایس کا دعویٰ ہے کہ لیفٹیننٹ کرنل پرساد پروہت نے ملزم سدھاکر چترویدی کی دیولالی میں واقع رہائش گاہ میں ایل ایم ایل فریڈم موٹر سائیکل میں آر ڈی ایکس نصب کیا تھا۔ جبکہ این آئی اے کا دعویٰ ہے کہ یہ کام اندور میں ہوا تھا اور سیندھوا بس اسٹینڈ سے موٹر سائیکل مالیگائوں لائی گئی تھی۔
اس پورے کیس کا دارومدار اس بات پر تھا کہ دھماکہ موٹر سائیکل میں نصب کئے گئے بم میں ہوا تھا جبکہ جج نے اپنے فیصلہ میں کہا ہے کہ تفتیشی ایجنسیاں اور استغاثہ یہ ثابت ہی نہیں کرسکے کہ بم موٹر سائیکل میں نصب تھا۔ جج کے مطابق گاڑی کی ڈکی میں آر ڈی ایکس اور امونیم نائٹریٹ کو ملا کر بنایا گیا بم ہونے کے الزام کو ثابت کرنے کے لئے اُس وقت کے ناسک کے ڈائریکٹوریٹ آف فارینسک سائنس لیباریٹری کے اسسٹنٹ کیمیکل اینلائزر ڈاکٹر سہاس باکرے کی رپورٹ پر انحصار کیا گیا ہے۔ تاہم عدالت میں جرح کے دوران ڈاکٹر سہاس نے قبول کیا کہ انہوں نے کوئی سائنٹیفک ٹیسٹ نہیں کیا تھا جس کی بنیاد پر وہ یہ ثابت کرسکیں کہ بم گاڑی کی سیٹ کے نیچے نصب کیا گیا تھا۔ اپنی رپورٹ میں انہوں نے یہ بات محض اپنے مشاہدہ کی بنیاد پر لکھی ہے اور یہ صرف ان کا اندازہ تھا کہ بم سیٹ کے نیچے لگایا گیا ہوگا۔ انہیں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا ۔
اس بیان کی بنیاد پر جج نے کہا کہ ’’یہ بم دھماکہ کا ایک سنگین کیس ہے جس میں اندازے لگانا کافی نہیں ہے۔ ایک ماہر جسے جائے حادثہ پر خصوصیت سے سائنسی طریقہ سے ثبوت اکٹھے کرنےاور تفتیشی ایجنسی کی رہنمائی کرنے کیلئے بلایا گیا ہواس سے یہ امید بھی نہیں کی جاسکتی کہ وہ صرف اندازہ لگائے۔ ایسے موقع پر کسی ماہر کو لازمی طور پر سائنٹفک ٹیسٹ کرکے کوئی حتمی نتیجہ اخذ کرنا چاہئے تھا۔‘‘ جج نے یہ بھی نوٹ کیاکہ اس ماہر کو اپنی رپورٹ فوری طور پر تفتیشی ایجنسی کو دے دینی چاہئے تھی لیکن اس نے تقریباً ۱۵؍ دن رپورٹ اپنے پاس رکھنے کے بعد تفتیش کاروں کو سونپی۔
اس تعلق سے خصوصی جج لاہوٹی نے کہا ہےکہ ’’موٹرسائیکل کی سیٹ کے نیچے بم رکھا ہونے کا دعویٰ سائنسی نہیں بلکہ محض اندازہ کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دھماکہ کیلئے استعمال ہونے والے اجزاء معلوم کرنے کیلئے بنیادی ٹیسٹ بھی نہیں کیا گیا تھا۔