Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’برطانیہ چاہے جو سمجھے،فلسطین ایکشن کی حمایت کرتی ہوں‘‘

Updated: August 19, 2025, 1:10 PM IST | Agency | London

فلسطین سے یگانگت اور اسرائیل کی مخالفت میں عالمی شہرت یافتہ آئرش مصنفہ سیلی رونی کی جرأت رندانہ،’فلسطین ایکشن‘پر پابندی کے برطانوی اقدام کی مخالفت کی

British police detain a man during a Palestine Action demonstration in central London. Photo: INN
مرکزی لندن میں فلسطین ایکشن کے مظاہرے کے دوران برطانوی پولیس ایک شخص کو حراست میں لیتے ہوئے۔ تصویر: آئی این این

عالمی شہرت یافتہ آئرش ناول نگار سیلی رونی نےفلسطین سے یگانگت کیلئے جرأت رندانہ کا مظاہرہ کیا ہے۔وہ اسرائیلی مظالم کیخلاف آواز اٹھانے والی تحریک ’فلسطین ایکشن‘ کے حق میں  کھل کر سامنے آئی ہیں۔ انہوں  نے برطانوی اقدامات کے خلاف کہا کہ ہے کہ’ ’فلسطین ایکشن ، کی حمایت کو برطانوی حکومت اگر دہشت گردی سمجھتی ہے تو سمجھتی رہے، میں اپنے ناولوں سے حاصل  رائلٹی کی رقم کو اس کاز کیلئے استعمال کروں گی۔آئرش ٹائمز پرشائع شدہ  اپنے طویل مضمون میں مشہور زمانہ مصنفہ نے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ’’میں  بی بی سی سے ملنے والی رائلٹی کو فلسطین ایکشن کی فنڈنگ کے لئے  استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔‘‘
 واضح رہے کہ ’فلسطین ایکشن‘ برطانیہ کا ایک  ایکشن گروپ ہے جو فلسطینیوں کے حق میں سرگرم ہے۔ اس گروپ کی سرگرمیاں زیادہ تر اسلحہ ساز کمپنیوں کو نشانہ بنانے پر مرکوز رہی ہیں، خاص طور پر غزہ کی موجودہ جنگ کے آغاز کے بعد سے۔برطانوی حکومت نے جولائی میں اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ اس گروپ کے درجنوں افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ اس کی حمایت میں سیکڑوں مظاہرین بھی پکڑے گئے۔ فلسطین ایکشن کو جولائی میں برطانیہ کے ہوم سیکریٹری یویٹ کوپر نے کالعدم قرار دیا تھا جب کارکنوں نے مبینہ طور پر آکسفورڈ شائر میں برائز نورٹن میں گھس کر ۲؍ فوجی طیاروں کو نقصان پہنچایا، جس سے۷۰؍ لاکھ برطانوی پاؤنڈز کا نقصان ہوا، گروپ کی رکنیت، حمایت یا فنڈنگ پر۱۴؍ سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
 مغربی آئرلینڈ میں مقیم سیلی رونی نے لکھا کہ ’’میری کتابیں اب بھی برطانیہ میں شائع ہوتی ہیں، اور بک شاپس اور یہاں تک کہ سپر مارکیٹس میں بھی  دستیاب ہیں، حالیہ برسوں میں برطانیہ کے سرکاری نشریاتی ادارے بی بی سی نے میرے ناولز (نارمل پیوپل اور کنورسیشنز وِد فرینڈز)کے ۲؍ ڈرامے بنائے ہیں، اور اس کیلئے  مجھے باقاعدگی سے فیس ادا کی جا رہی ہے۔‘‘  ناول ’نارمل پیپل‘  کی مصنفہ نے یہ بھی لکھا کہ میں’’ یہ واضح کرنا چاہتی ہوں میں اپنے کام سے حاصل ہونے والی آمدنی کے ساتھ ساتھ عام طور پر اپنے عوامی پلیٹ فارم کو فلسطین ایکشن اور نسل کشی کے خلاف حمایت کرنے کیلئے  استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں۔ اگر برطانوی حکومت اس کو دہشت گردی سمجھتی ہے، تو شاید اسے ان تنظیموں کی چھان بین کرنی چاہئے جو میرے کام کو فروغ دیتی ہیں اور میری سرگرمیوں کو فنڈ دیتی ہیں، جیسے ڈبلیو ایچ اسمتھ اور بی بی سی۔‘‘ سیلی رونی نے لکھا کہ’’۹؍ اگست کو ایک ہی دن میں۵۰۰؍ سے زیادہ پرامن مظاہرین کی گرفتاری کے بعد وہ بولنے پر مجبور ہوئیں،اگر یہ اقدام مجھے برطانیہ کے قانون کے تحت دہشت گردی کا حامی بناتا ہے، تو ایسا ہی سمجھا جائے۔رونی نے کہا ہے کہ برطانوی وزیراعظم کیر اسٹارمر کی حکومت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے تحفظ کے لیے شہریوں کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کو چھین رہی ہے۔‘‘ اس حساس دل مصنفہ   کا یہ موقف اس وقت سامنے آیا جب وزیر داخلہ یوویٹ کوپر نے ایک بار پھر فلسطین ایکشن پر پابندی کا دفاع کیا اور کہا کہ یہ محض  ایک عام احتجاجی گروپ نہیں ہے جو کبھی کبھار مظاہرے کرتا ہو۔‘‘ سیلی رونی، جنہوں نے ’نارمل پیوپل‘ اور ’انٹرمیٹزو‘ جیسے بیسٹ سیلر ناول تحریر کیے ہیں، اس احتجاجی گروپ کی کھل کر حمایت کر چکی ہیں۔ جون میں گارجین میں انہوں نے لکھا تھا کہ’’فلسطین ایکشن گروپ پر پابندی لگانا آزادیِ اظہار پر ایک خطرناک حملہ ہوگا۔‘‘ بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں  وضاحت کی ہے کہ سیلی رونی کے ساتھ فی الحال کوئی نیا پروجیکٹ زیر عمل نہیں ہے۔۵؍جولائی کو برطانوی حکومت کی جانب سے گروپ پر پابندی کے بعد سے اب تک۷۰۰؍ سے زائد افراد گرفتار ہو چکے ہیں۔

سیلی رونی نے  اسرائیلی ناشر کو ترجمہ کی اجازت نہیں دی 
قابل ذکر ہے کہ ۲۰۲۱ء میں سیلی رونی  نے اپنی کتاب’بیوٹی فل ورلڈ ویئر آر یو ‘  کو عبرانی زبان میں اسرائیلی پبلشر کے ذریعے ترجمہ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کے بائیکاٹ کی حمایت میں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ ’’اعزاز کی بات ہوگی کہ کتاب کا ترجمہ کسی ایسے ادارے کے ذریعے کیا جائے جو ان کے سیاسی مؤقف کو شیئر کرتا ہو۔‘‘

اسرائیلی حملوں پر عالمی سطح پر بے چینی بڑھ رہی ہے
غزہ کی دگرگوں صورتحال اور اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف پچھلے مہینے سے بھر  بے چینی بڑھتی جارہی ہے ۔فرانس، برطانیہ ، اسپین، کنیڈا، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا و دیگر نے بھی  ریاست فلسطین کو تسلیم کرنےکا اعلان کیا ہے۔  پچھلے دنوں  جرمنی، اٹلی، برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ کے وزرائے خارجہ نے مشترکہ بیان جاری کیاتھا ، جس میں غزہ  پر قبضے کے منصوبے کو ’انسانی تباہی کو مزید گہرا کرنے والا‘ قرار دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ آئس لینڈ، آئرلینڈ، لکسمبرگ، مالٹا، ناروے، پرتگال، سلووینیا،ا سپین — ان۸؍ یورپی ممالک نے شدید مذمت کی اور اس منصوبے کو ’ظالمانہ‘کہا۔ آسٹریلیا کے وزیراعظم البانیز اور نیوزی لینڈ کے وزیراعظم نے بھی غزہ کے معاملے پر اسرائیل کی کھل کر مخالفت کی ہے ۔ بعد ازیں ڈنمارک کی وزیر اعظم میٹے فریڈرکسن نے وزیر اعظم نیتن یاہو کوذاتی طور پر مسئلہ قرار دیا اور یورپی یونین کو اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کی اپیل کی ۔   اتنا ہی نہیں سعودی عرب، ایران، قطر ان  تینوں ممالک نے اسرائیل کے غزہ پر قبضے کے منصوبوں کی سختی سے مذمت کی ہے اور انہیں ’نسل کشی‘ اور ’نسلی صفائی‘کا عمل قرار دیا۔ ۳۱؍ عرب و اسلامی ممالک جن میں ترکی، مصر، اردن، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، پاکستان، بنگلہ دیش وغیرہ شامل ہیں  نے ایک مشترکہ بیان میں واضح الفاظ میں مذمت کی۔
غزہ پر  اسرائیلی کارروائی  ’نسل کشی‘ :ڈیوڈ گروس مین
 ٹائمس آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق ایوارڈ یافتہ اسرائیلی مصنف ڈیوڈ گروس مین نے یکم اگست کو پہلی بار ملک کی غزہ میں جاری مہم کو ’’نسل کشی‘‘ قرار دیا اور زور دیا کہ وہ یہ اصطلاح ’’بے پناہ درد اور ٹوٹے دل کے ساتھ‘‘ استعمال کر رہے ہیں۔ یہ بات انہوں نے اطالوی روزنامہ لا ریپبلکا سے گفتگو میں کہی۔انہوں نے اخبار کو بتایا’’کئی برسوں تک میں نے اس اصطلاح ’نسل کشی‘ کے استعمال سے گریز کیا۔ لیکن اب جو تصویریں میں نے دیکھی ہیں اور جن لوگوں سے میں نے بات کی ہے، ان کے بعد میں یہ لفظ استعمال کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘انہوں نے کہا کہ ’’یہ لفظ ایک برفانی تودے کی طرح ہے: ایک بار جب آپ اسے بول دیتے ہیں تو یہ پھیلتا ہی جاتا ہے، اور یہ مزید تباہی اور تکلیف میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ کہنا کہ اسرائیل کے حوالے سے، یہودی قوم کے حوالے سے، لفظ ’نسل کشی‘ استعمال کیا جا رہا ہے یہ محض موازنہ بھی ہمیں بتاتا ہے کہ ہمارے ساتھ کچھ بہت برا ہو رہا ہے۔‘‘ گروس مین نے نے۲۰۱۸ء میں اسرائیل کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ ’’اسرائیل پرائز فار لٹریچر‘‘ بھی جیتاتھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK