Updated: December 08, 2025, 9:03 PM IST
| London
معروف مصنف سلمان رشدی نے ایک انٹرویو میں وزیر اعظم نریندر مودی کے دورِ حکومت میں ہندوستان میں آزادی اظہار رائے پر حملوں، ادیبوں اور صحافیوں پر دباؤ، اور بڑھتی ہوئی ہندو قوم پرستی پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔ رشدی کا کہنا ہے کہ ملک کی تاریخ کو نئے بیانیے کے مطابق دوبارہ لکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
سلمان رشدی۔ تصویر:آئی این این
معروف برطانوی ہندوستانی مصنف سلمان رشدی نے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے دوران ہندوستان میں آزادی اظہار پر بڑھتے دباؤ اور ہندو قوم پرستی کے فروغ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بلومبرگ کو دیئے گئے ایک تازہ انٹرویو میں رشدی نے کہا کہ وہ مسلمانوں کی منفی تصویر کشی اور اُن دباؤ کے طریقوں سے پریشان ہیں جو بقول ان کے ملک کے ادیبوں، صحافیوں اور ماہرین تعلیم پر بڑھتے جا رہے ہیں۔ رشدی نے کہا کہ ’’میں اس صورتِ حال پر بہت پریشان ہوں۔ ہندوستان میں میرے بہت سے دوست ہیں، اور ہر کوئی صحافیوں، ادیبوں، دانشوروں اور پروفیسروں کی آزادی پر ہونے والے حملوں سے سخت متاثر ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: کمبوڈیا کی تھائی لینڈ کے فضائی حملوں کی شدید مذمت؛ کشیدگی میں اضافہ
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک کے تشخص اور تاریخ کو دوبارہ تشکیل دینے کی کوششیں جاری ہیں۔ رشدی کے مطابق ’’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان کی تاریخ دوبارہ اس انداز میں لکھی جا رہی ہے کہ ہندو اچھے اور مسلمان برے نظر آئیں۔ وی ایس نائپال نے جسے ’زخمی تہذیب‘ کہا تھا یعنی یہ تصور کہ ہندو تہذیب مسلمانوں کی آمد سے مجروح ہوئی، اسی سوچ کو اب توانائی اور رفتار مل رہی ہے۔‘‘ اپنے پرانے انتباہات کے بارے میں انہوں نے کہا، ’’اگر آپ ایک مصنف ہیں اور توجہ سے حالات کا جائزہ لیتے ہیں، تو بعض اوقات آپ کو چیزیں آتی ہوئی نظر آ جاتی ہیں۔ میں بھی وہی کر رہا تھا، توجہ دے رہا تھا۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: گوا کے نائٹ کلب میں سلنڈر دھماکہ کے سبب بھیانک آتشزدگی ،۲۵؍ افراد ہلاک
یاد رہے کہ سلمان رشدی ۱۹۸۸ء میں اپنے متنازع ناول کی اشاعت کے بعد ایران کے فتوے کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اگست ۲۰۲۲ءمیں اُن پر اُس وقت حملہ ہوا جب وہ مغربی نیویارک میں ایک لیکچر دینے والے تھے۔ہندوستان نے اکتوبر ۱۹۸۸ء میں راجیو گاندھی کے دورِ حکومت میں وزارتِ خزانہ کے ایک کسٹم آرڈر کے تحت ان کے ناول کی درآمد پر پابندی عائد کی تھی، جس کی وجہ مسلمان کمیونٹی کے ممکنہ ردعمل کو قرار دیا گیا تھا۔ تاہم، ۵؍ نومبر ۲۰۲۴ء کو دہلی ہائی کورٹ نے ۳۷؍ سال سے برقرار اس پابندی کو ختم کر دیا۔