• Sun, 19 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

سعودی عرب: پچاس سال بعد کفالت نظام ختم، لاکھوں مزدوروں کو آزادی اور نئے حقوق

Updated: October 19, 2025, 7:10 PM IST | Riyadh

سعودی عرب نے نصف صدی سے رائج کفالت نظام ختم کر کے مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کی نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ یہ فیصلہ لاکھوں غیر ملکی مزدوروں کیلئے آزادی، قانونی تحفظ اور بہتر کام کے مواقع کی راہ ہموار کرے گا۔

Saudi Crown Prince Mohammed bin Salman. Photo: INN
سعودی ولیعہد محمد بن سلمان۔ تصویر: آئی این این

 سعودی عرب نے ایک تاریخی اور انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے پچاس سال سے نافذ کفالت نظام کو باضابطہ طور پر ختم کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ جون۲۰۲۵ء میں کیا گیا جس کا براہِ راست اثر تقریباً ایک کروڑ تیس لاکھ غیر ملکی مزدوروں پر پڑے گا۔ یہ مزدور زیادہ تر جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا سے تعلق رکھتے ہیں، جو طویل عرصے سے محدود حقوق اور سخت پابندیوں کے تحت کام کر رہے تھے۔ 
کفالت نظام عربی لفظ کفالت سے ماخوذ ہے اور اسے بیسویں صدی کے وسط میں خلیجی ممالک میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اس نظام کے تحت غیر ملکی مزدوروں کی قانونی حیثیت ان کے آجر یا کفیل سے منسلک ہوتی تھی۔ مزدور نہ صرف اپنی ملازمت تبدیل نہیں کر سکتے تھے بلکہ ملک سے باہر جانے یا قانونی تحفظ حاصل کرنے کیلئے بھی اپنے کفیل کی اجازت درکار ہوتی تھی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس نظام کو طویل عرصے سے جبری مشقت اور غلامی جیسا ڈھانچہ قرار دیا تھا، کیونکہ اس میں آجر کو مزدور پر غیر معمولی کنٹرول حاصل تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے: پبلک سیکٹر کیپیبلیٹیزانڈیکس۲۰۲۵ء: پبلک سیکٹر رینکنگ میں مدینہ منورہ پہلے نمبر پر

نئے نظام کے تحت سعودی حکومت نے کفالت کی جگہ معاہداتی ملازمت کا ماڈل متعارف کرایا ہے۔ اس کے تحت غیر ملکی مزدور اب اپنے آجر کی اجازت کے بغیر ملازمت تبدیل کر سکیں گے، ملک چھوڑنے کیلئے کسی ایگزٹ ویزا کی ضرورت نہیں ہوگی، اور انہیں قانونی تحفظ اور شکایات درج کرانے کا حق حاصل ہوگا۔ یہ اصلاحات سعودی عرب کے وژن۲۰۳۰ء کا حصہ ہیں جس کا مقصد معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرنا اور غیر ملکی کارکنوں کے حالاتِ کار بہتر بنانا ہے۔ حکومت نے اس اقدام کو ایک بڑی سماجی و اقتصادی پیش رفت قرار دیا ہے، جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے زور دیا ہے کہ ان اصلاحات پر مؤثر عمل درآمد اور نگرانی ضروری ہے تاکہ مزدوروں کو حقیقی فائدہ پہنچے۔ 
اس وقت سعودی عرب میں تقریباً ایک کروڑ چونتیس لاکھ غیر ملکی مزدور مقیم ہیں جو ملک کی مجموعی آبادی کا تقریباً بیالیس فیصد ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مزدور بنگلہ دیش اور ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ۲۰۲۳ء میں تقریباً چار لاکھ اٹھانوے ہزار بنگلہ دیشی اور چار لاکھ چھبیس ہزار سے زائد دیگر ممالک کے شہری سعودی عرب میں روزگار کیلئے گئے۔ تقریباً چالیس لاکھ افراد گھریلو خدمات کے شعبے میں کام کرتے ہیں جن میں تمام غیر ملکی ہیں، جب کہ باقی مزدور تعمیرات، زراعت، ہوٹل اور دیگر خدماتی شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: ایمریٹس این بی ڈی کا آر بی ایل بینک میں ۲۷؍ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کا اعلان

ماہرین کے مطابق کفالت نظام کے خاتمے سے سعودی عرب میں مزدوروں کیلئے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ یہ اصلاحات مزدوروں کو آزادی اور خودمختاری فراہم کریں گی، استحصال اور بدسلوکی میں نمایاں کمی لائیں گی، کام کے حالات بہتر بنائیں گی، اور غیر ملکی مزدوروں کو عزت، تحفظ اور گفت و شنید کے منصفانہ مواقع فراہم کریں گی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام نہ صرف سعودی عرب بلکہ پورے خلیجی خطے میں مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کی سمت ایک تاریخی سنگِ میل ثابت ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK