آپ سعودی مجلس شوریٰ کے سابق نائب رئیس تھےجبکہ تنظیم رابطہ ٔ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل کے عہدے پر بھی گراںقدر خدمات انجام دیں، آپ کی والدہ کا تعلق بھیونڈی سے تھا۔
عمر عبداللہ نصیف مرحوم۔ تصویر: آئی این این
اتوار۱۲؍ اکتوبر۲۰۲۵ء کی صبح جدہ سعودی عرب سے یہ غمناک خبر آئی کہ سابق نائب رئیس مجلس شوریٰ سعودی عرب اور سابق سیکریٹری جنرل رابطہ ٔ عالم اسلامی مکہ مکرمہ ڈاکٹر عبداللہ عمر نصیف مالک حقیقی سے جا ملے۔ وہ ۸۶؍ برس کے تھے ۔ جدہ میں بلد کے علاقے میں واقع مرحوم کے آباءو اجداد کی میراث وسیع و عریض کثیر منزلہ رہائش گاہ کو مملکت سعودی عربیہ کی تاریخ میں خصوصی اہمیت حاصل ہے اور اس عمارت کو تاریخی ورثہ تسلیم کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ عمر نصیف جولائی ۱۹۳۹ء میں جدہ میں پیدا ہوئے ، ان کے والد مرحوم محمد نصیف کا بھی اپنے دور کی بااثر و رسوخ شخصیات میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔ ان کے دیگر اقارب و برادران میں سے محمد ایک معروف وکیل ہیں ، عبدالرحمٰن ڈیسالینیشن پلانٹ ( سمندر کے کھارے پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرنے کا دنیا کا سب سے بڑا پلانٹ ) کے ڈائریکٹر اِن چیف ہیں اور ان کی حقیقی ہمشیرہ مرحومہ فاطمہ عمر نصیف کا سعودی عرب میں خصوصاً خواتین میں تعلیم کو عام کرنے والی خاتون اول کی حیثیت سے شمار ہوتا تھا ۔
ڈاکٹر عبداللہ عمر نصیف نے یو کے ( برطانیہ ) کی مشہور لیڈز یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ / پی ایچ ڈی کی تکمیل کے بعد کنگ عبد العزیز یونیورسٹی میں بطور پروفیسرخصوصاً کیمسٹ اور جیولوجسٹ کی حیثیت سے اپنے کرئیر کا آغاز کیا تھا لیکن چند برسوں بعد اپنی غیر معمولی ذہانت و صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے اسی یونیورسٹی کے سب سے بڑے و اعلیٰ منصب (صدر ) پر فائز کئے گئے ۔ مرحوم کو ماہر لسانیات کہنا بھی بجا ہوگا کہ کم از کم۱۲؍ تا ۱۴؍ زبانوں پر آپ عبور رکھتے تھے ۔ خوش اخلاقی و خوش گفتاری جیسے اوصاف سے رب کریم نے آپ کو خصوصی طورپر نوازا تھا اور یہی وجہ تھی کہ عرصہء دراز تک آپ ورلڈ لیگ آف مسلم نیشنز/ رابطہ ٔ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل جیسے منصب اعلیٰ پر فائز رہے ۔ بحیثیت سیکریٹری آپ کے دور میں یہ بات زبان زد خاص و عام تھی کہ نصیف صاحب کی زبان و قلم صرف دو ’لا‘ سے مانوس ہے ایک لا الہ الا اللہ کا ’لا‘ اور دوسرا ’لا‘ مانع / نو آبجکشن اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے سے کوئی بھی مسلم جب موصوف تک رسائی کرپاتا تو وہ خوشی سے سرشار اپنا کام مکمل کئے بغیر واپس نہیں لوٹتا تھا۔ اللہ پاک نے ڈاکٹر عبداللہ عمر نصیف کو ایسی عزت و احترام سے نوازا تھا جو کم لوگوں کو نصیب ہوا کرتا ہے ۔
اہل بھیونڈی کی یہ سعادتمندی رہی کہ ایسی لائق و فائق و عظیم شخصیت کی والدہ ماجدہ کا تعلق شہر بھیونڈی ہی سے تھا ۔ اپنے دور کے ایک معروف محدث مولانا عبدالصمد شرف الدین نرول ، ڈاکٹر نصیف صاحب کے حقیقی ماموں تھے اور ہم لوگوں نے اپنے بچپن میں غالباً۶۸-۱۹۶۷ء کے درمیان محمد نصیف ( ڈاکٹر عبداللہ نصیف کے والد مرحوم ) کا عربی میں ایک خطاب بروز جمعہ ہندوستانی مسجد( بھسار محلہ) میں سماعت بھی کیا تھاجس کا اردو ترجمہ مولانا عبدالصمد شرف الدین صاحب نے بذات خود پڑھ کر سنایا تھا۔علاوہ ازیں ستمبر۱۹۹۴ء میں عالم اسلام کی ممتاز دانش گاہ دارالعلوم ندوۃ العلماءلکھنؤ کے سابق ناظم مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی کی خدمت میں برادر مرحوم امین الدین شجاع الدین (سابق رئیس التحریر تعمیر حیات فکری ترجمان دارالعلوم ندوۃ العلماء) نے جب حاضری دی تھی اور حضرت کے اس استفسار کے جواب میں کہ کہاں سے تعلق ہے ، جب بھیونڈی کا ذکر آیا تو آپ نے اپنا جواب یوں مرحمت فرمایا تھا کہ آپ مولانا عبدالصمد شرف الدین اور ان کے برادر خورد(چھوٹے بھائی) خلیل شرف الدین کے وطن سے تشریف لارہے ہیں ۔ اس کے بعد جب بھی ہماری ان کے بھانجے ڈاکٹر عبداللہ عمر نصیف سے ملاقاتیں ہوئیں تو ان دونوں بھائیوں عبدالصمد اور خلیل شرف الدین کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ اللہ کا فضل و کرم رہا کہ حدیث شریف کے موضوع پر تقریباً ۱۴؍ جلدوں پر مشتمل’ تحفۃ الاشراف‘ مرتب کرنے والے عبدالصمد شرف الدین صاحب ہی کے توسط سے ناچیز کا ڈاکٹر عبداللہ عمر نصیف سے باقاعدہ تعارف ہوا تھا۔ لہٰذا راقم کی یہ خوش قسمتی رہی کہ بارہا آپ سے شرف و نیاز حاصل رہا اور ہر ملاقات پر ناچیز نے آپ کو خلیق و ملنسار ہی پایا۔ موصوف نصیب صاحب اسلامی خدمات کی نسبت پر شاہ فیصل ایوارڈ سے بھی نوازے گئے تھے اور انتقال سے چند برس قبل تک آپ نائب رئیس مجلس شوریٰ سعودی عربیہ کے منصب پر بھی فائز تھے۔ حق مغفرت کرے ، بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔