پائو فروخت کرکے گھر چلانے والے ناظم ۳۰۰؍ سے زائد افراد کو ڈوبنے سے بچا چکے ہیں، کئی لاشیں نکال چکے ہیں، وہ پرندوں کو بچانے کیلئے بھی سمندر میں کود جاتے ہیں۔
EPAPER
Updated: July 21, 2025, 11:56 AM IST | Shahab Ansari | Mumbai
پائو فروخت کرکے گھر چلانے والے ناظم ۳۰۰؍ سے زائد افراد کو ڈوبنے سے بچا چکے ہیں، کئی لاشیں نکال چکے ہیں، وہ پرندوں کو بچانے کیلئے بھی سمندر میں کود جاتے ہیں۔
اگر آپ کبھی گیٹ وے آف جائیں اور وہاں آپ کو کوئی شخص سمندر میں تیرتا ہوا دکھائی دے تو اسے دیکھ کر نہانے کیلئے آپ بھی سمندر میں کودنے کی غلطی مت کیجئے گا کیونکہ اس کے ۲؍ نقصانات ہوسکتے ہیں اول تو یہ کہ سمندر میں تیرنے کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے آپ کے ڈوبنے کا خطرہ ہے اور اگر آپ خود تیر کر بچ جائیں یا پہلے سے پانی میں موجود شخص نے آپ کو بچا لے تب بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کو پولیس کارروائی کا سامنا کرنا پڑے کیونکہ ۵۱؍ سالہ ناظم شیخ تنہا ایسے شخص ہیں جنہیں پولیس گیٹ وے آف انڈیا پر سمندر میں تیرنے سے منع نہیں کرتی۔ پولیس نے انہیں یہاں تیرنے کی رعایت اس لئے دی ہے کہ گزشتہ تقریباً ۳۵؍ برسوں کے دوران وہ ۳۰۰؍ سے زائد افراد کو یہاں ڈوبنے سے بچا چکے ہیں۔
ناظم شیخ گیٹ وے آف انڈیا کے غیر سرکاری ’’لائف گارڈ‘‘ ہیں، انہیں حکومت یا بی ایم سی نے یہ ذمہ داری نہیں سونپی ہے بلکہ یہ ذمہ انہوں نے خود اٹھا رکھی ہے۔ مدوجزر کے وقت خاص طور پر وہ گیٹ وے آف انڈیا پر جیٹی نمبر ۶؍ کے پاس خاموشی سے سیاحوں کو دیکھتے رہتے ہیں کہ کہیں کوئی پانی میں گر کرڈوب نہ جائے کیونکہ اس جگہ حادثات زیادہ ہوتے ہیں۔ ناظم اپنے دن کا زیادہ تر حصہ یہیں گزار دیتے ہیں لیکن یہ ان کا پیشہ نہیں ہے روزگار کیلئے وہ اپنے والد کی طرح پائو سپلائی کرتے ہیں۔ پائو پہنچانے کی معمولی آمدنی سے اپنا اور اپنی بیوی بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔
ڈوبتے ہوئے لوگوں کو بچانے کی ذمہ داری اٹھانے کے تعلق سے ان کا کہنا ہے کہ الله تعالیٰ نے طاقت بخشی ہے اور لوگوں کو بچانے جیسا عظیم کام لے رہا ہے وہ میرے لئے بہت بڑی بات ہے۔ البتہ حکومت کے ذریعہ ان کی خدمات کو مکمل طور پر نظرانداز کرنے کا انہیں دکھ بھی ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ انہیں بطور لائف گارڈ سرکار ملازمت پر رکھ لے لیکن اب ۵۱؍ سال کی عمر کو پہنچ جانے کی وجہ سے اس کی امید معدوم ہوچکی ہے۔ ان کی خدمات پر حکومت کی جانب سے انہیں آج تک کوئی ایوارڈ یا انعام نہیں دیا گیا ہے۔ اس تعلق سے ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں بھلے ہی کچھ نہ ملے لیکن الله کی ذات سے امید ہے کہ آخرت میں اچھا اجر ضرور ملے گا۔ وہ ۳۰۰؍ سے زائد افراد کو ڈوبنے سے بچا چکے ہیں، ۲۵؍ سے ۳۰؍ لاشیں نکال چکے ہیں اور برسات میں کبوتر یا کبھی دیگر پرندے بھی پانی میں گرجاتے ہیں اور انہیں بچانے کی ذمہ داری بھی ناظم نبھاتے ہیں۔ حال ہی میں شب ۸؍ بجے انہیں ایک چیل کو بچانے کیلئے سمندر میں کودنا پڑا تھا۔اس سوال پر کہ لوگوں کو ڈوبنے سے بچانے کی شروعات کہاں سے ہوئی ناظم نے بتایا کہ ۱۶؍ سال کی عمر میں پہلی مرتبہ انہوں نے ایک بوڑھی خاتون کو بچایا تھا جو حادثاتی طور پر پانی میں گرگئی تھیں۔ البتہ اس وقت وہاں ان سے بڑی عمر کے دیگر تیراک بھی موجود تھے، اس لئے ان کا کام آسان ہوگیا تھا۔
ناظم کے مطابق ان کی پیدائش ممبئی میں ہوئی ہے لیکن آبائی وطن یوپی کے پرتاپ گڑھ میں ہے اور گاؤں میں گھر سے فاصلے پر واقع نہر میں گائوں کے دیگر بچوں کے ساتھ جسم پر تھرما کول باندھ کر انہوں نے تیرنا سیکھا تھا تاہم گائوں کے طریقہ سے تیرنے میں طاقت زیادہ صرف ہوتی ہے اور ممبئی کا طریقہ مختلف ہے جو کسی کو بچانے میں زیادہ کارآمد ہوتا ہے۔ البتہ سمندر میں تیرنے اور دیگر مقام پر تیرنے میں بہت فرق ہوا ہے کوئی اگر سوئمنگ پول یا ندی وغیرہ میں تیرنا سیکھ چکا ہے تب بھی اس کے سمندر میں ڈوب جانے کا خطرہ ہوتا ہے کیونکہ اوپر سے اگر سمندر میں زیادہ لہریں نہ بھی اٹھ رہی ہوں تب بھی نیچے کی طرف پانی بہت طاقت سے کسی بھی چیز کو سمندر میں لے جاتا ہے جس کا تجربہ سمندر میں تیرنے ہی سے ہوتا ہے۔ممبئی میں وہ قلابہ مارکیٹ میں رہتے ہیں اور گھر کے قریب مقامی افراد سمندر میں تیرا کرتے تھے ان کے ساتھ انہوں نے سمندر میں تیرنا سیکھ لیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ کبھی کوئی سمندر میں گر جائے تو لوگ شور مچاتے ہیں لیکن کوئی خود مدد نہیں کرتا اور انہوں نے سوچ رکھا تھا کہ موقع ملے گا تو وہ ڈوبنے والوں کو بچائیں گے اور ایسا ہی ہوا جب کبھی ان کے سامنے کوئی پانی میں گر جاتا تو اسے بچانے پانی میں کود جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچانے والا الله ہے کبھی بھی پانی میں جانے سے پہلے وہ آیت الکرسی پڑھ کر خود پر دم کرلیتے ہیں۔ قلابہ میں رہتے ہیں اس لئے اگر وہ گھر پر ہوں اور گیٹ وے پر کوئی ڈوب رہا ہو تو لوگ آدھی رات کو بھی پولیس اور مقامی افراد فائر بریگیڈ کے ساتھ انہیں بھی فون کردیتے ہیں۔