Inquilab Logo Happiest Places to Work

غزہ میں شدید گرمی کی لہر، لوگ بھوک اور غذائی قلت سے نڈھال،امدادی کارروائیوں میں رکاوٹیں

Updated: August 16, 2025, 3:31 PM IST | Agency | New York/Gaza

غزہ کے حکام کے مطابق۱۳؍ اگست تک غذائی قلت سے۱۰۶؍ بچوں سمیت۲۳۵؍افراد کی ہلاکت ہو ئی۔تیزی سے بڑھتی بھوک کے باوجود امدادی قافلوں کی تعداد روز بہ روز کم ہوتی جا رہی ہے۔

People queue for water during the scorching heat in Gaza. Photo: AP/PTI
غزہ میں شدید گرمی کے دوران لوگ پانی کیلئے قطار میں۔ تصویر:اےپی/ پی ٹی آئی

غزہ میں شدید گرمی کی لہر نے بھوک اور غذائی قلت سے نڈھال افراد کی تکالیف میں اضافہ کر دیا ہے جبکہ امدادی کارروائیوں کو اسرائیلی فوج کی جانب سے تاخیر، رکاوٹوں اور پابندیوں کا سامنا  کرنا پڑرہا ہے۔
 اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کو ان دنوں گرمی کی شدید لہر کا سامنا ہے جہاں درجہ حرارت۴۰؍ ڈگری سینٹی گریڈ یا۱۰۴؍ ڈگری فارن ہائیٹ سے تجاوز کر گیا ہے۔فلسطینی پناہ گزینوں کیلئے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) نے خبردار کیا ہے کہ ان حالات میں لوگ جسم میں پانی کی کمی کا شکار ہونے لگے ہیں کیونکہ پینے کے صاف پانی کی شدید قلت ہے۔انروا جنگ کے آغاز سے اب تک  غزہ میں تقریباً۱۷؍ لاکھ افراد کو ہنگامی بنیاد پر پانی، نکاسی آب اور صحت و صفائی کی خدمات فراہم کر چکا ہے۔ اسی دوران امدادی امور کیلئے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے بتایا ہے کہ حالیہ ایام میں اسرائیل نے علاقے میں چند امدادی مشن روانہ کرنے کی اجازت دی ہےلیکن انہیں کئی طرح کی رکاوٹوں اور سلامتی کے مسائل کی وجہ سے بروقت انجام نہیں دیا جا سکا۔۶؍اور ۱۲؍اگست کے درمیان امدادی اداروں نے ۸۱؍امدادی کارروائیوں کی اجازت لینے کیلئے اسرائیلی حکام کے ساتھ بات چیت کی جن میں سے۳۵؍ کے لئے سہولت فراہم کی گئی۔۲۹؍کو ابتداً اجازت دے دی گئی لیکن انہیں راستے میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔۱۲؍ کارروائیوں کو اجازت دینے سے انکار کیا گیا جبکہ ۵؍ امدادی کارروائیاں کئی طرح کے مسائل کے باعث انجام نہ پا سکیں۔ اوچا نے بتایا ہے کہ رکاوٹوں کا سامنا کرنے والے۱۴؍ امدادی مشن بعدازاں کسی نہ کسی طرح اپنی منزل پر پہنچنے میں کامیاب رہے۔
 عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے بتایا ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد غزہ میں بھوک کی شرح اب تک کی بلند ترین سطح پر ہے۔ غزہ کے طبی حکام کے مطابق۱۳؍ اگست تک غذائی قلت سے۱۰۶؍ بچوں سمیت۲۳۵؍افراد کی ہلاکت ہو چکی تھی۔تیزی سے بڑھتی بھوک کے باوجود امدادی قافلوں کی تعداد روز بہ روز کم ہوتی جا رہی ہے۔ `اوچا کے مطابق بھوکے اور مایوس لوگ عموماً راستے میں ہی ٹرکوں سے امدادی سامان اتار لیتے ہیں جبکہ لوٹ مار کے باعث بھی یہ مدد اپنے مقررہ مقامات تک نہیں پہنچ پاتی۔
 گزشتہ ماہ `ڈبلیو ایف پی کی امدادی ٹیمیں کیریم شالوم اور زکم کے سرحدی راستوں سے امدادی خوراک کے ایک ہزار ۱۲؍ٹرک غزہ میں لائی تھیں جن میں سے۱۰؍ ہی امدادی گوداموں تک پہنچ سکے اور دیگر پر موجود تمام سامان راستوں ہی میں اتار لیا گیا۔
 اگرچہ `ڈبلیو ایف پی کے پاس خطے میں امدادی خوراک کا بڑا ذخیرہ موجود ہے جس سے غزہ کے۲۱؍ لاکھ افراد کی۳؍ ماہ کی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں لیکن یہ سامان طویل عرصہ سے گوداموں میں اور ٹرکوں پر پڑا ضائع ہو رہا ہے اور بیشتر چیزوں کے قابل استعمال رہنے کی آخری تاریخ بھی قریب آ چکی ہے۔امدادی ادارے بڑے پیمانے پر خوراک اور تجارتی سامان غزہ میں لانے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور حالیہ دنوں مزید غذائی مدد علاقے میں پہنچی ہے لیکن اس کا معیار اور مقدار ضروریات کوپورا کرنے کے لئے ناکافی ہیں۔
 ۱۰؍ اگست تک بڑے پیمانے پر کھانا بنانے کے ۸۱؍ مراکز میں روزانہ۳؍لاکھ۲۴؍ہزار کھانے تیار کئے جا رہے تھے۔  اس سے پہلے ان میں روزانہ۱۰؍ لاکھ کھانے تیار ہو رہے تھے لیکن اب بھی اس سے محدود پیمانے ہی پر غذائی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK