شاہ پور تعلقہ کے نڈگاؤں گرام پنچایت کے تحت آنے والے چافے واڑی گاؤں کی رہنے والی سنگیتا مکنے کو پیر کی دوپہر دردزہ اٹھا لیکن بدقسمتی سے اس گاؤں میں آج بھی پختہ سڑک جیسی بنیادی سہولت میسر نہیں ہے۔
EPAPER
Updated: June 25, 2025, 4:56 PM IST | Khalid Abdul Qayyum Ansari | Bhiwandi
شاہ پور تعلقہ کے نڈگاؤں گرام پنچایت کے تحت آنے والے چافے واڑی گاؤں کی رہنے والی سنگیتا مکنے کو پیر کی دوپہر دردزہ اٹھا لیکن بدقسمتی سے اس گاؤں میں آج بھی پختہ سڑک جیسی بنیادی سہولت میسر نہیں ہے۔
شاہ پور تعلقہ کے نڈگاؤں گرام پنچایت کے تحت آنے والے چافے واڑی گاؤں کی رہنے والی سنگیتا مکنے کو پیر کی دوپہر دردزہ اٹھا لیکن بدقسمتی سے اس گاؤں میں آج بھی پختہ سڑک جیسی بنیادی سہولت میسر نہیں ہے۔ اسپتال تک پہنچنے کیلئے نہ توکوئی سیدھا راستہ ہے اور نہ ہی کوئی سواری۔ گاؤں سے قریبی ایمبولنس تک پہنچنے والا ایک کلومیٹر کا راستہ جو نجی کھیتوں سے ہو کر جاتا ہے، بند تھا۔ ایسے میں سنگیتا کو کچے، کیچڑ بھرے، پتھریلے اور خطرناک راستے سے ڈونگری واڑی تک جھولی میں ڈال کرلے جایا گیا۔ ایمبولنس گائیدنڈ روڈ پر انتظار کر رہی تھی ۔خستہ حال راستے کے سبب سنگیتا مکنے کی حالت بگڑگئی۔ انہیں دورے پڑنے لگے ۔ مقامی افراد کی مدد سے انہیں فوری طور پر تھانے سول اسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ اب زیر علاج ہیں۔
یہ صرف سنگیتا کی کہانی نہیں ہے بلکہ ان لاکھوں دیہی خواتین کی کہانی ہے جنہیں آزادی کے اتنے برسوں بعد بھی بنیادی سہولیات مہیاہونے پر سخت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ وہ برسوں سے سڑک، طبی سہولیات اور بنیادی ڈھانچے کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں مگر ان کی آوازیں یا تو فائلوں میں دب گئیں یا وعدوں کے گرداب میں گم ہو گئیں۔کیا ۷۸؍ سالہ آزادی کا مطلب صرف تقریریں اور جھنڈیاں ہیں؟ یا وہ ماں بھی اس کا حق رکھتی ہے جو زندگی دینے کیلئے خودموت سے لڑ رہی ہو؟