Inquilab Logo

شیوراج کی ’لاڈلی بہنا‘ پاس، گہلوت کی ’او پی ایس‘ اور بھوپیش کا ’ایم ایس پی‘ فیل

Updated: December 04, 2023, 11:50 AM IST | Inquilab News Network | Jaipur, Bhopal and Raipur

مدھیہ پردیش: چوہان پر عوام کااعتماد برقرار، حکومت مخالف رجحان بے اثر رہا ، راجستھان :گہلوت کا جادو نہیں چلا، فلاحی اسکیمیں کام نہیں آئیں، چھتیس گڑھ:بگھیل کو بڑا جھٹکا، کئی وزیر ہارے۔

Chief Minister Shivraj Singh Chouhan expressing happiness among his supporters and party workers after his victory in Madhya Pradesh. Photo: INN
مدھیہ پردیش میں کامیابی کے بعدوزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان اپنے حامیوں اور پارٹی کارکنوں کے درمیان خوشی کااظہار کرتے ہوئے۔ تصویر : آئی این این

 پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں سے۴؍ ریاستوں کے انتخابی نتائج تقریباً سامنے آگئے ہیں ۔ نتائج کے رجحانات کے مطابق تین ریاستوں میں جنہیں ہندی بیلٹ کہا جاتا ہے، بی جے پی نے ایک طرح سے کلین سویپ کر دیا ہے۔ ان تین ریاستوں میں سے دو یعنی راجستھان اور چھتیس گڑھ کو بی جے پی نے کانگریس سے چھین لیا ہے جبکہ مدھیہ پردیش میں اس کی اپنی ہی حکومت تھی۔ وہاں پر اس کی کارکردگی مزید بہتر ہوئی ہے۔
تمام انتخابی جائزے فیل ہوئے
 یہ نتائج اگزٹ پولس اور دیگر تمام انتخابی جائزوں کے برعکس ہے۔ ان میں سے صرف راجستھان ہی ایک ایسی ریاست تھی جہاں کانگری اور بی جے پی میں سخت مقابلہ بتایا جارہاتھا جبکہ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کی کامیابی کے امکانات ظاہر کئے جارہے تھے لیکن جب نتائج سامنے آئے تو پتہ چلا کہ تینوں ہی جگہ پر بی جے پی کی گویا لہر چلی ہے۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی نے دوتہائی سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بھی زعفرانی پارٹی کی واضح اکثریت کی جانب پیش رفت جاری ہے۔ الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مدھیہ پردیش میں بی جے پی کو ۱۶۴؍ نشستوں پر سبقت حاصل ہے جبکہ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بالترتیب ۱۱۵؍ اور۵۴؍ سیٹوں  پر اسے برتری حاصل ہے۔ اس کے برعکس مدھیہ پردیش میں کانگریس کو صرف۶۵؍ سیٹوں  پراکتفا کرنا پڑا ہے جبکہ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں اس کے حصے میں محض ۶۹؍ اور ۳۵؍ سیٹیں ہی آسکی ہیں۔ 
کانگریس کی ضمانتوں پرعوام نے اعتماد نہیں کیا
کانگریس کو مذکورہ تینوں ریاستوں میں اپنی ضمانتوں  پر بڑا ناز تھا۔ اسی طرح اسے اس بات کی بھی امید تھی کہ اس کی ذات پر مبنی مردم شماری کے اس کے وعدے پر لوگ اعتبار کرتے ہوئے اس کے حق میں ووٹ دیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس کے برعکس مدھیہ پردیش میں شیوراج حکومت کی ’لاڈلی بہنا‘کی اسکیم نے اپنا اثردکھایا اور بی جے پی کو ایک بار پھر حکمرانی کا موقع دیا۔ اسی طرح سے راجستھان میں اشوک گہلوت حکومت نے پرانی پنشن اسکیم (او پی ایس) کو بحال کیا تھا۔ خیال کیا جارہا تھا کہ اس کی وجہ سے سرکاری ملازمین اور سرکاری ملازمت کی خواہش رکھنے والے اس اسکیم کے حق میں ووٹ دیں گے، لیکن یہ بھی کانگریس کی خام خیالی ثابت ہوئی۔ کچھ اسی طرح کا معاملہ چھتیس گڑھ میں بھوپیش بگھیل کے ساتھ بھی ہوا۔ انہوں نے اپنی ریاست کے لئے کسانوں کے دیرینہ مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے ایم ایس پی نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن ان کا یہ وعدہ رائے دہندگان کو راس نہیں آیا۔ اس طرح تینوں ہی ریاستوں میں کانگریس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 
گہلوت کا وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ 
انتخانی رجحانات سامنے آتے ہی راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نےاپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ شام کے وقت وہ گورنر ہاؤس پہنچے اور گورنر کلراج مشرا کو اپنا استعفیٰ پیش کیا۔ ریاستی گورنر نے فوری طور پر اُن کا استعفیٰ قبول بھی کر لیاتاہم وزیراعلیٰ سے ریاست میں نئی ​​حکومت کی تشکیل تک کام جاری رکھنے کی اپیل کی۔ بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسمبلی انتخابات میں شکست کے بعد پارٹی کو ملے مینڈیٹ کو ہم نے کھلے دل سے قبول کرلیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ یہ ہم سب کیلئے ایک غیر متوقع نتیجہ ہے۔ یہ شکست ظاہر کرتی ہے کہ ہم اپنے منصوبوں ، اپنے دور میں بنانے گئےقوانین اور فلاحی اسکیموں کو عوام تک پہنچانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ میں نئی حکومت کیلئے نیک خواہشات کااظہار کرتا ہوں۔
وسندھرا نے جیت کا سہرا مودی کے سر باندھا
 انتخابات کے دوران وزیراعظم سے ایک فاصلہ بنا کر چلنے والی راجستھان کی سابق وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا نے کامیابی کا سہرا مودی کے سر باندھا ہے۔ انہوں نے بی جے پی کی جیت کو وزیر اعظم مودی کے منتر ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس‘ کے نام کرتے ہوئے کہا کہ یہ دراصل مودی کی گارنٹی کی جیت ہے۔ انہوں نے جھالاواڑ ضلع کی جھالراپاٹن سیٹ سےلگاتا پانچویں بار الیکشن جیتنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ باتیں کہیں ۔ حالانکہ اس بات کی امید کم ہی ہے کہ بی جے پی انہیں وزارت اعلیٰ کے طورپر آگے کرے گی لیکن انہوں نے اپنی طرف سے کوششیں شروع کردی ہیں ۔ وزیراعظم کی تعریف کو اسی پس منظر میں دیکھا جارہا ہے۔ انہوں نے صرف مودی کی تعریف پراکتفا نہیں کیا بلکہ امیت شاہ اور جے پی نڈا کی شان میں بھی قصیدے پڑھے۔ انہوں نے کہا کہ راجستھان اوردیگر صوبوں میں پارٹی کو ملنے والی یہ شاندار کامیابی مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی کامیاب حکمت عملی کی جیت ہے اور یہ جیت پارٹی صدر جے پی نڈا کی موثر قیادت کی جیت ہے۔
چھتیس گڑھ کے کئی وزیروں کو شکست کا سامنا
 چھتیس گڑھ میں حکومت مخالف رجحان اتنا زیادہ تھا کہ بھوپیش کابینہ کے ۹؍ وزیروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیراعلیٰ بھلے ہی اپنا الیکشن جیت گئے ہوں لیکن وہ اپنے کابینی ساتھیوں  کو نہیں بچا سکے۔ اسی طرح اسمبلی اسپیکر ڈاکٹر چرن داس نے اپنی سیٹ سے کامیابی حاصل کرلی جبکہ ان کے نائب یعنی ڈپٹی اسپیکر سنت کمار نیتام کو ہار کا منہ دیکھنا پڑا۔ حیرت انگیز طورپر ریاست کے نائب وزیراعلیٰ ٹی ایس سنگھ دیو جو اس مرتبہ وزیراعلیٰ بننے کا خواب دیکھ رہے تھے، اپنی روایتی سیٹ بھی نہیں بچا سکے۔ بی جے پی امیدوار نے انہیں ہار سے دوچار کیا۔ حالانکہ ہار جیت کا فرق محض ۱۵۷؍ ووٹوں ہی کا رہا۔ خبر لکھے جانے تک انہوں نے دوبارہ ووٹوں کی گنتی کی اپیل کی ہے۔
سیتا پور میں کانگریس کو پہلی مرتبہ شکست کا سامنا
 اسی طرح سے آزادی کے بعد پہلی بار کانگریس کو سیتا پور سیٹ پر شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہاں سے ریاستی وزیر امرجیت بھگت کانگریس کے امیدوار تھے۔ان کے علاوہ شہری ترقیات کے وزیر ڈاکٹر شیو ڈاہریا کو آرنگ سیٹ پر بی جے پی کے گرو خوشونت صاحب نے۱۶؍ ہزار سے زائد ووٹوں  کے فرق سے شکست دی ہے۔ ایک اور وزیر رویندر چوبے کو بی جے پی کے ایک نئے امیدوار ایشور ساہو نے ایک سخت مقابلے میں شکست سے دوچار کیا۔بھوپیش کابینہ کے ایک اہم رکن موہن مرکام کو بھی ان کی روایتی سیٹ پر ہار سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ انہیں ۱۸؍ ہزار سے زائدووٹوں کے فرق سے شکست ہوئی ہے۔اسی طرح وزیر محصولات جے سنگھ اگروال کو بی جے پی کے لکھن لال دیوانگن نے۲۵؍ ہزار سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے شکست دی۔ ریاستی وزیر داخلہ تامر دھوج ساہو کو بی جے پی کے للت چندراکر نے۱۵؍ ہزار سے زیادہ ووٹوں سے ہرایا۔ ایک اوروزیر گرو رودر ساہو کو بھی شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
چھتیس گڑھ کے مسلم وزیر محمد اکبر بھی ہارے
  محمد اکبر کی صورت میں ریاست میں ایک ہی مسلم وزیر تھے، انہیں بھی ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک لاکھ ۴؍ ہزار سے زائد ووٹ لینے کے باوجود انہیں تقریباً ۴۰؍ ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست ہوئی۔ ریاست میں محمد اکبر کی مقبولیت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ انتخابات میں انہیں ریاست میں سب سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK