مرکزی حکومت اسمال سیونگ اسکیموں کی شرح سود کا از سر نو جائزہ لینے جارہی ہے ، امکان ہے کہ شرح سود میں تخفیف کردی جائے۔
چھوٹی بچت اسکیمیں معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ تصویر: آئی این این
ملک کے کروڑوں سرمایہ کاروں کے لئے ۲۰۲۶ء کی شروعات چند اہم تبدیلیوں کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ مرکزی حکومت جنوری تا مارچ کی سہ ماہی کے لئے اسمال سیونگز اسکیموں کی شرحِ سود کا ازسرِنو جائزہ لینے جا رہی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اس مرتبہ پبلک پروویڈنٹ فنڈ (پی پی ایف)، سکنیا سمردھی یوجنا اور سینئر سٹیزن سیونگز اسکیم جیسی مقبول اسکیموں کی شرحِ سود میں کٹوتی کی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں وزارتِ خزانہ ۳۱؍ دسمبر کو باضابطہ اعلا کر سکتی ہے۔اسمال سیونگز اسکیموں کی شرحِ سود طے کرنے کے لیے حکومت ’شیاملا گوپی ناتھ کمیٹی‘ کے فارمولے پر عمل کرتی ہے، جس کے تحت ان اسکیموں کی شرحیں سرکاری بانڈس کی پیداواری شرح سے منسلک ہوتی ہیں۔گزشتہ چند مہینوں میں ۱۰؍سالہ سرکاری بانڈ کے منافع میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔ ستمبر سے دسمبر کے درمیان یہ اوسطاً ۶؍فیصد کے آس پاس رہی۔ فارمولے کے مطابق اس میں ۰ء۲۵؍ فیصد کا اسپریڈ شامل کرنے پر پی پی ایف کی شرح تقریباً۶ء۸۰؍ فیصد بنتی ہے جبکہ فی الحال سرمایہ کاروں کو۷ء۱؍ فیصد سود دیا جا رہا ہے۔ یہی فرق آئندہ کٹوتی کے امکانات کو مضبوط کرتا ہے۔
سال ۲۰۲۵ کے دوران ریزرو بینک آف انڈیانے ریپو ریٹ میں تقریباً۱ء۲۵؍ فیصد تک کمی کی ہے۔ اس کے بعد بینکوں نے بھی فکسڈ ڈپازٹ کی شرحیں گھٹانا شروع کر دی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ خوردہ مہنگائی میں آنے والی کمی بھی حکومت کو شرحِ سود میں نرمی کے لیے حوصلہ دے رہی ہے۔ عموماً جب بازار میں مجموعی طور پر سود کی شرحیں نیچے آتی ہیں تو حکومت ڈاک خانہ اسکیموں پر مالی بوجھ کم کرنے کے لیے ان میں رد و بدل کرتی ہے۔ملک میں بڑی تعداد میں لوگ محفوظ سرمایہ کاری کے لیے ڈاک خانہ کی اسکیموں پر انحصار کرتے ہیں۔ خاص طور پر سینئر سٹیزن اپنی باقاعدہ آمدنی کے لیے ان پر بھروسہ کرتے ہیں، جس پر اس وقت ۸ء۲؍ فیصد سود دیا جا رہا ہے۔ اسی طرح بیٹیوں کے مستقبل کے لیے سکنیا سمردھی یوجنا سب سے زیادہ مقبول اسکیم ہے، جس پر بھی اس وقت۸ء۲؍ فیصد شرحِ سود حاصل ہو رہی ہے۔ اگر حکومت ان اسکیموں کی شرحیں گھٹاتی ہے تو اس کا براہِ راست اثر متوسط طبقے کے خاندانوں اور پنشن پر گزارہ کرنے والوں کی ماہانہ آمدنی پر پڑے گا۔ اسی لئے حکومت جو بھی فیصلہ کرے گی اسے بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہو گا کیوں کہ ان اسکیموں میں سرمایہ کاری کروڑوں افراد نے کی ہے۔