Inquilab Logo Happiest Places to Work

قریش برادری کی ہڑتال، کسان ،جانور، کمپنیاں سب پریشان

Updated: July 30, 2025, 10:20 PM IST | Aurangabad

جانور ذبح نہ ہونے کی وجہ سے ایکسپورٹ کمپنیوں کو کروڑوں کا نقصان، کسان اپنے جانور آوارہ چھوڑنے پر مجبور، چڑیا گھر کے جانوروںکا بکرے اور مرغی کے گوشت پر گزارا

Farmers are waiting for customers, but no one is ready to come (file photo)
کسان گاہکوں کے انتظار میں ہیں مگر کوئی آنے کو تیار نہیں ہے ( فائل فوٹو)

پولیس کی ہرسانی اور گئو رکشکوں کے بے جا تشدد کے خلاف قریش برادری نے مہاراشٹر میں ہڑتال کر رکھی ہے۔ وہ نہ بڑے جانور خرید رہے ہیں اور نہ ان کا گوشت بیچ رہے ہیں۔  اس کی وجہ سے کسانوں کو تو نقصان ہو ہی رہا ہے۔ کئی ایکسپورٹ کمپنیوں کا بھی کام رکا ہوا ہے۔ جبکہ چڑیا گھروں کے جانور کی غذا میں بھی فرق  آ گیا ہے۔ 
 گوشت کے  ایکسپورٹ کا کاروبار مندہ 
  اورنگ آباد شہر میں حکومت سے منظور شدہ’ الانا‘ اور’ `القریش‘ نام  کے  دو بڑے سلاٹر ہاؤس کام کر رہے تھے۔ مگر  ہڑتال کے سبب یہاں  مویشیوں کا ذبیحہ تقریباً رک گیاہے، جس کی وجہ سے نہ صرف گوشت کی مقامی سپلائی بند ہو گئی ہے بلکہ بیرون ملک برآمدات بھی ٹھپ پڑ گئی ہیں۔محکمہ حیوانات کے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر ناناصاحب کدم نے بتایا کہ ’’گزشتہ سال ’الانا‘ کمپنی میں ۴؍ لاکھ ۸۲؍ ہزار بھینسیں ذبح کی گئی تھیں، جس سے ریاست کو ۹؍ کروڑ ۶۵؍ لاکھ روپے کا ریونیو حاصل ہوا تھا۔ مگر اس وقت روزانہ بمشکل چند جانور ہی ذبح ہو رہے ہیں۔‘‘ الانا کمپنی کا گوشت بیرون ممالک برآمد کیا جاتا ہے، مگر اب ہڑتال کے باعث یہ برآمدات بند ہونے کے دہانے پر پہنچ گئی ہیں، اس کی وجہ سے کمپنی کو روزانہ کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی  حکومت کو حاصل ہونے والا ٹیکس بھی رک گیاہے۔
 دیہی معیشت پر گہرا اثر
 مویشیوں کی خرید و فروخت بند ہونے کی وجہ سے کسان بھی شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ دودھ کا کاروبار کرنے والے کسان جب ناکارہ ہو چکی بھینسیں یا نر جانور کا پال نہیں سکتے کیونکہ اس پر کافی خر چ آتا ہے۔ لہٰذا وہ اسے بیچ دیتے ہیں۔ اگر جانور فروخت نہیں ہوتے تو ان کی مشکلیں بڑھ جاتی ہیں۔ ان دنوں مہاراشٹر کے دیہی علاقوں میں کسان مشکل میں ہیں۔  ایسی حالت میں وہ مجبوری کے تحت اپنے جانوروں کو یا تو کھلا چھوڑ دیتے ہیں یا ندی نالوں میں بہا دیتے ہیں۔ کئی علاقوں سے یہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ بھو ک  سے  ان جانوروں کی موت ہو گئی اور ان کی لاشوں کو  کتے  چیر پھاڑ کر کھا رہے ہیں، جس کی وجہ سے علاقے میں تعفن اور گندگی پھیل رہی ہے۔
  ٹی وی چینلوں نے قریش برادری کی ہڑتال کا اب تک  کوئی نوٹس نہیں لیا ہے لیکن  سوشل میڈیا پر اس تعلق سے برابر خبریں آ رہی ہیں۔ ’ بولا پوڈھاری‘ نامی( مراٹھی) یوٹیوب چینل کے نمائندے نے دیہی علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے کسانوں کے مسائل کا جائزہ لیا۔ کسانوں نے بتایا کہ جب گائے یا بھینس مادہ بچہ جنتی ہے تو امید ہوتی ہے کہ وہ دودھ دے گی، مگر نر بچہ صرف بیچنے کے کام آتا ہے۔ اسی طرح کچھ ناکارہ جانور جو نہ دودھ دیتے ہیں اور نہ کھیتی باڑی میں کام آتے ہیں، اُنہیں بیچ کر کسان آمدنی حاصل کرتے ہیں۔ مگر موجودہ حالات میں یہ بھی ممکن نہیں رہا۔
چڑیا گھر کے جانوروں کیلئے خوراک کا بحران 
  ناگپور کے سب سے بڑے چڑیا گھر اور اورنگ آباد کے سدھارتھ گارڈن میں گوشت خور جانوروں کو خوراک کی فراہمی میں شدید دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔ شیر اور دیگر گوشت خور جانوروں کو بھینس کا گوشت نہ ملنے کے باعث اب بکرے اور مرغی کے گوشت پر گزارا کرنا پڑ رہا ہے۔ گوشت فراہم کرنے والے ٹھیکیداروں نے بھی سپلائی میںپیش آنے والی پریشانیوں کی تصدیق کی ہے اور حکومت سے اس  ہڑتال کا کوئی فوری حل نکالنے  کا مطالبہ کیا ہے۔
قریش برادری کا مؤقف
 آل انڈیا جمعیۃ القریش کے نمائندے سراج قریشی نے کہا، ’’پولیس اور دیگر محکموں کو قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنا چا ہئے ، نہ کہ شدت پسند تنظیموں کے دباؤ میں آ کر قریش برادری کو  نشانہ بنانا چاہئے۔ انہوں نے کہا ’’ اس سلسلے میں ہم نے اسپیشل آئی جی کو یادداشت بھی پیش کی ہے۔کسانوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر گائے کے ذبیحہ پر پابندی عائد ہے تو پھر ناکارہ جانوروں کی پرورش کیلئے مراکز قائم کئے جائیں تاکہ کسانوں کو ان جانوروں سے نجات مل سکے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’اگر گئورکشکوں کو واقعی گائے سے ہمدردی ہے تو وہ آئیں اور ان جانوروں کو اپنے خرچ پر پالیں۔‘‘ریاست میں جاری یہ بحران صرف اقلیتی طبقے کے روزگار تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کے اثرات معیشت، ایکسپورٹ، کسانوں کی زندگی اور جنگلی جانوروں کی صحت تک پھیل چکے ہیں۔ اگر حکومت نے فوری قدم نہ اٹھایا تو حالات مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ اب تک کم از کم  ۸؍ اضلاع میں پوری طرح سے بڑے کے گوشت کی فروخت بند کر دی گئی ہے۔ اس میں مزید علاقوں سے قریشی برادری کے شامل ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK