• Mon, 07 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اسرائیلی یونیورسٹی سےآئی آئی ٹی بامبے کے اشتراک کی طلبہ نے مخالفت کی

Updated: September 11, 2024, 5:55 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

فلسطین میں جاری نسل کشی کی وجہ سے طلبہ تنظیم ’اے پی پی ایس سی‘ نے اسے تشویشناک کہا اور انتظامیہ سے نظرثانی کا مطالبہ کیا۔

IIT Bombay. Photo: INN
آئی آئی ٹی بامبے۔ تصویر : آئی این این

’انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (آئی آئی ٹی بامبے) نے حال ہی میں اسرائیل کے ایک تعلیمی ادارے سے چند کورسیز کیلئے اشتراک کیا ہے لیکن یہاں کے طلبہ فلسطین میں جاری نسل کشی کی وجہ سے اس کی مخالفت کررہے ہیں۔
 آئی آئی ٹی بامبے کے طلبہ کی تنظیم ’امبیڈکر پیری یار پھُلے اسٹڈی سرکل (اے پی پی ایس سی)‘ نے فلسطین میں جاری نسل کشی کی وجہ سے اپنے تعلیمی ادارے کے  اسرائیل کی کسی بھی یونیورسٹی سے کسی بھی طرح کے تعلیمی اشتراک کے فیصلے کی سخت مذمت کی ہے۔
 آئی آئی ٹی بامبے نے کیمسٹری میں ماسٹرس، پی ایچ ڈی اور پی ایچ ڈی کے آگے کی تعلیم میں ریسرچ کے مواقع کیلئے اسرائیلی یونیورسٹی کے ساتھ ’ویبینار‘ کا اعلان کیا تھا جس کے بعد طلبہ کی تنظیم نے اس فیصلے کی مذمت کی۔ حالانکہ ان کورسوں کیلئے اخراجات کا انتظام پہلے ہی کردیا گیا ہے، اس کے باوجود طلبہ کی تنظیم اس معاہدے سے ناراض ہے۔ 
 آئی آئی ٹی بامبے کے اکیڈمک افیئرس (پی جی ) کے جنرل سیکریٹری   کے ذریعہ باضابطہ طور پر طلبہ کو   ویبینار میں مفت حصہ لینے کیلئے مدعو کیا گیا تھا۔ یہ ویبینار اسرائیل کی ’بار-ایلان یونیورسٹی‘ کی جانب سے منعقد کیا جارہا تھا۔تاہم یہاں کے طلبہ کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق اور انصاف کے تئیں آئی آئی ٹی بامبے کی جو قدریں رہی ہیں، یہ اشتراک اس کے منافی  ہے۔ اے پی پی ایس سی نے اس تعلق سے بیان دیا ہے کہ ’’اسرائیل کے ذریعہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے باوجود آئی آئی ٹی بامبے اسرائیلی یونیورسٹیوں سے اشتراک کررہا ہے جو تشویشناک ہے۔ ہمیں ناانصافی کے خلاف کھڑا رہنا چاہئے اور اس بات کو حتمی بنانا چاہئے کہ ہم ان سے اشتراک کریں جو انسانی قدروں کے تئیں ہماری سوچ سے مطابقت رکھتے ہوں۔ 
 طلبہ نے انتظامیہ سےاسرائیل کے ساتھ اپنی شراکت داری پر نظرثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی تعلیمی اداروں کے ساتھ تعاون کرکے آئی آئی ٹی بامبے اسرائیلی حکومت کے ان اقدامات کی تائید کر رہا ہےجو  انسانی حقوق کے اصولوں سے متصادم ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK