• Tue, 18 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

سوڈان دو فوجی گروہوں کے درمیان تصادم کے سبب تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا

Updated: November 18, 2025, 2:37 PM IST | Agency | Khartoum

صدر عمرالبشیرکی معزولی کے بعد سے سوڈان میں عدم استحکام کی صورتحال ہے، برسراقتدار فوج کے ہی ۲؍ گروہ آپس میں نبرد آزما ہیں ، اس کی وجہ سے ملک بھر میں شورش برپا ہے

Sudan: The army promised to rid the country of corruption, but instead created a civil war. Photo: INN
سوڈان:فوج نے بدعنوانی سے نجات دلانے کا وعدہ کیا تھا مگر خانہ جنگی کی صورت پیدا کر دی۔ تصویر:آئی این این
سوڈان اس وقت دنیا کے سنگین ترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کا سامنا کر رہا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق ملک کی آبادی  کا نصف سے زیادہ  حصہ یعنی ۳۰؍ ملین سے زائد افراد امداد کے محتاج ہیں۔ ان میں  سے ۹ء۶؍ ملین بے گھر ہو چکے ہیں اور تقریباً ۱۵؍ ملین بچے  ہیں جو زندگی موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ملک میں جاری سنگین غذائی قلّت تقریباً ۲۴؍ ملین افراد کو متاثر کر رہی ہے۔الفاشر کے قریب مقیم  بے گھر افراد کے کیمپوں میں قحط کا اعلان کر دیا گیا ہے۔سوڈان مسلّح افواج اور ریپڈ سپورٹ فورس کے درمیان لڑائی ملک کو تباہی کے دہانے پر لے آئی ہے۔ پورے ملک میں قحط، بڑے پیمانے پر ہجرت اور وسیع پیمانے پر تشدد کا سامنا ہے۔
لڑائی کن لوگوں کے درمیان ہے ؟
یہ جنگ، جنرل عبدالفتاح البرہان کی زیر قیادت، سوڈان مسلح افواج( ایس اے ایف)اور، محمد حمدان دگلو المعروف ہمدتی کی زیر قیادت، ریپڈ سپورٹ فورس ( آر ایس ایف)کے درمیان ہو رہی ہے۔ ایس اے ایف ملک کی باقاعدہ فوج ہے اور طویل عرصے سے ریاست کا غالب ادارہ رہی ہے۔ دوسری طرف، آر ایس ایف ۲۰۰۰ء میں جنگ دارفور کے دوران باغی گروپوں کے مقابل جنجاوید کے نام سے مسلّح کئے گئے گروپوں پر مشتمل ہے۔  وقت کے ساتھ ساتھ، آر ایس ایف  اپنی کمانڈ، مالیاتی نیٹ ورک، سونے کی کان کنی  اور غیر ملکی تعلقات کی حامل ایک باقاعدہ نیم فوجی فورس میں تبدیل ہو گئی تھی۔
سوڈان اس نقطے تک کیسے پہنچا ؟
۲۰۰۲ءمیں دارفور میں غیر عرب باغی گروپوں نے سوڈان حکومت کے خلاف بغاوت کی اور اس پر کئی دہائیوں سے جاری سیاسی و اقتصادی نظراندازی کے الزامات لگائے۔ خرطوم نے عرب ملیشیا جنجاوید کو مسلح کر کےبغاوت کا جواب دیا۔ اس مسلّح گروپ  نے لوٹ مار اور آتش زنی کی مہم چلائیں جس کے نتیجے میں  ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوگئے۔  ۲۰۰۷ء تک یہ انسانی بحران بہت گہرا ہو چکا تھا۔ لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے تھے ۔ دو ملین سے زیادہ انسانوں کو بے گھر کر دیا گیا اور  زمین، شناخت اور طاقت سے متعلقہ بنیادی مسائل جُوں کے توں رہ گئے۔
سابق صدر عمر البشیر کے دور میں جنجاویدکو آر ایس ایف کے نام سے دوبارہ منظم کیا گیا۔ اس طرح اس مسلّح گروہ کو سوڈان خفیہ ایجنسی کے تحت قانونی حیثیت دے کر ’بغاوتوں سے لڑنے‘کا کام سونپ دیا گیا۔سابقہ اونٹوں کے تاجر سے جنگجو بننے والے ہمدتی نے آر ایس ایف کی کمانڈ سنبھالی اور اسے ایک نیم خودمختار فوجی سلطنت میں تبدیل کر دیا۔سوڈان پارلیمنٹ نے، آر ایس ایف کے اپنا کمانڈو ڈھانچہ برقرار رکھنے کے باوجود، ۲۰۱۷ء میں ایک قانون منظور کر کے اسے قومی مسلح افواج کا حصہ بنادیا۔
۲۰۱۹ءمیں ایک طویل عرصے سے عہدہ صدارت پر فائز عمر البشیر کے خلاف بڑے پیمانے کے عوامی مظاہروں کے بعد انہیں معزول کر کے ایک نازک سول۔فوجی عبوری حکومت تشکیل دے دی گئی۔ اس حکومت کی قیادت فوجی سربراہ عبدالفتاح البرہان کے ہاتھو میں ہے۔عبدالفتاح البرہان نے دیگر ممالک کے فوجی سربراہوں کی طرح سال بھر میں الیکشن کروا کر حکومت عوام کے ہاتھوں میں دینےکا وعدہ کیا تھا لیکن ایسا ہوا نہیں۔ اس دوران ان کے اور آر ایس ایف کے سربراہ ہمدتی کے درمیان اختلافات بڑھنے لگے۔    
بالآخر ۲۰۲۳ء میں حکومت منتقل کرنے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا اور دونوں گروہوں کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے ۔ بالآخر دونوں گروہوں میں باقاعدہ جنگ چھڑ گئی اور جو دھیر ے دھیرے شدید ہوتی چلی گئی۔ ۱۸؍ ماہ کے محاصرے کے بعد گزشتہ ہفتے آر ایس ایف نے ،دارفور میں سوڈان مسلّح فوج کے مضبوط گڑھ الفاشر پر قبضہ کر لیا ۔ میڈیا میں آنے والی رپورٹوں کے مطابق آر ایس ایف نے شہر پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں سے لوگوں کو باہر نکال دیا اور اس دوران عوام پر ظلم ڈھائے گئے۔ بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہو گئے۔ حالانکہ گزشتہ ۱۸؍ ماہ کے دوران جاری جنگ کے سبب لاکھوں افراد پہلے ہی پڑوسی ممالک میں جا کر پناہ لے چکے ہیں۔ سوڈان حکومت کا الزام ہے کہ آر ایس ایف کو متحدہ عرب امارات کی جانب سے مالی مدد دی جا رہی ہے توکہ سوڈان میں خانہ جنگی جاری رکھی جا سکے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK