Updated: November 27, 2025, 10:00 PM IST
| Sumatran
انڈونیشیا کے سماترن جنگل میں دنیا کے نایاب ترین پھول Rafflesia hasseltii کی غیر معمولی دریافت نے مقامی اور بین الاقوامی تحفظ پسندوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ ۲۳؍ گھنٹے کے طویل اور خطرناک سفر کے بعد جب پھول چاندنی رات میں کھلا تو اسے دیکھ کر محقق رو پڑے۔ واضح رہے کہ اس پھول کو جنگل میں آخری بار ایک دہائی سے زائد عرصے پہلے دیکھا گیا تھا۔ ماہرین اسے انتہائی نایاب اور قدرتی تحائف میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔
Rafflesia hasseltii کا غیر معمولی پھول ۔ تصویر: ایکس
سماترن کے گھنے اور دور دراز جنگلات میں انڈونیشیا کے تحفظ پسند سیپٹیان اینڈریکی،جو ڈیکی کے نام سے جانے جاتے ہیں،اس وقت بے قابو ہوکر رو پڑے جب انہوں نے دنیا کے نایاب ترین طفیلی پودوں میں سے ایک کی کھلتی ہوئی حالت دیکھ لی۔ چند میٹر کے فاصلے پر Rafflesia hasseltii کا غیر معمولی پھول پوری آب و تاب کے ساتھ کھل رہا تھا۔ ڈیکی نے بتایا، ’’جب میں نے اسے کھلتے دیکھا تو جذبات پر قابو نہ رکھ سکا۔ رینجر نے تو سمجھا شاید مجھ پر کچھ وارد ہوگیا ہے۔‘‘ یہ وہ لمحہ تھا جس کیلئے تحقیقاتی ٹیم نے ایک مقامی رینجر کی اطلاع کے بعد گھنے جنگل میں پورا دن پیدل سفر کیا تھا۔ ۱۳؍ سال کی تلاش، ۲۳؍ گھنٹے کے مسلسل سفر، شیروں کے خطرے اور فون کی ختم ہوتی بیٹریوں کے باوجود آخرکار انہیں وہ نایاب پھول مل گیا۔ یونیورسٹی آف آکسفورڈ بوٹینک گارڈن کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر کرس تھوروگوڈ نے اس منظر کو کیمرے میں محفوظ کیا، اور یہ ویڈیو تیزی سے وائرل ہوگئی۔ یہ پھول تقریباً ایک دہائی بعد پہلی بار انسانوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔
دنیا کا نایاب ترین پھول
دنیا میں Rafflesia کی کئی اقسام موجود ہیں، جسے عام طور پر “لاش کا پھول” یا “بدبودار للی” بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے پھول ایک میٹر تک چوڑے اور چھ کلوگرام سے زیادہ وزنی ہوسکتے ہیں۔ تاہم Rafflesia hasseltii ان میں سب سے نایاب سمجھی جاتی ہے۔ ڈاکٹر تھوروگوڈ کے مطابق: ’’اس کے سفید پس منظر پر بڑے سرخ دھبے اور پنکھڑیوں کی منفرد ساخت اسے حیرت انگیز بناتی ہے۔‘‘ ڈیکی، جنہوں نے زندگی کا بڑا حصہ نایاب پودوں کے تحفظ کیلئے وقف کر رکھا ہے، نے وبا کے دوران ڈاکٹر تھوروگوڈ کے ساتھ تحقیق شروع کی۔ ۲۰۲۱ء میں انہیں کئی Rafflesia مل چکے تھے، مگر یہ مخصوص نوع ان کی نظر سے اوجھل رہی۔
دریافت تک کا سفر
اس سال مغربی سماترا کے ایک رینجر نے ان سے رابطہ کیا اور پھول کی ابتدائی شکل کی تصاویر بھیجیں۔ Rafflesia کی کلیوں کو مکمل طور پر تیار ہونے میں کئی ماہ لگتے ہیں، جبکہ پھول صرف چند دن کیلئے کھلتا ہے،اسی وجہ سے اسے دیکھ پانا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ ڈاکٹر تھوروگوڈ نے بتایا کہ پھول کا مقام انتہائی دشوار گزار تھا اور وہاں شیروں اور گینڈوں کی موجودگی عام ہے۔ خصوصی اجازت نامہ حاصل کرنے کے بعد دونوں محققین مقامی رینجر اسوانڈی کے ساتھ جنگل کی طرف روانہ ہوئے۔ 23 گھنٹے بعد انہیں پھول تو مل گیا مگر وہ ابھی کھلا نہیں تھا۔ شام ڈھل رہی تھی اور شیر کے حملے کا خطرہ بڑھ چکا تھا، مگر ڈیکی ہار ماننے کو تیار نہ تھے۔ آخرکار، چاندنی رات میں پھول نے اپنی پنکھڑیاں کھول دیں۔ دونوں نے اس دلکش منظر کو اپنی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوتے دیکھا،ایک ایسا تجربہ جو ان کی زندگی میں ہمیشہ یادگار رہے گا۔ ڈیکی نے اس لمحے کو اپنے بچے کی پیدائش سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا، ’’جیسے بچہ نو ماہ میں پیدا ہوتا ہے، اسی طرح رافلیسیا بھی اتنے ہی عرصے میں کھلتی ہے۔‘‘
تنازع اور وضاحت
آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے جب اس دریافت کی پوسٹ شیئر کی گئی تو کچھ صارفین نے شکایت کی کہ انڈونیشیائی محققین اور گائیڈز کا نام شامل نہیں کیا گیا۔ یونیورسٹی نے وضاحت کی کہ وہ ۲۰۲۲ء سے انڈونیشیائی ساتھیوں کے ساتھ مل کر تحفظ اور مقامی صلاحیت کو مضبوط بنانے کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔
جنگلات کا تحفظ اور مستقبل کی امید
ڈیکی نے امید ظاہر کی کہ آنے والی نسلیں بھی اسی طرح سماترن کے جنگلات کی خوبصورتی دیکھ سکیں گی جیسے آج وہ خود دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم پائیدار ماحولیاتی سیاحت کو فروغ دیں۔‘‘ سماترا میں پام آئل کے پھیلتے ہوئے باغات سے جنگلات کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ ڈیکی کے مطابق، ’’اگر یہ جنگلات پام آئل کیلئے ختم کردیے گئے تو یہ سب سے بڑی تباہی ہوگی۔‘‘ ڈاکٹر تھوروگوڈ نے کہا کہ ڈیکی اور اسوانڈی جیسے لوگ ان بارشی جنگلات کے حقیقی محافظ ہیں، اور انہی کی بدولت دنیا ان خطوں کی اہمیت کو سمجھ رہی ہے۔