Inquilab Logo Happiest Places to Work

دہلی بیہودہ زبان استعمال کرنے میں سرفہرست، خاص طور پر خواتین کیلئے: سروے

Updated: July 22, 2025, 10:03 PM IST | New Delhi

دہلی بیہودہ الفاظ کے استعمال میں ملک بھر میں سرفہرست قرار پایا ہے۔ یہ انکشاف ایک ۱۱؍ سالہ جامع مطالعے میں سامنے آیا ہے جو سیلفی ود ڈاٹر فاؤنڈیشن اور مہارشی دیانند یونیورسٹی کے اشتراک سے کیا گیا۔

India Gate in Delhi. Photo: INN,.
دہلی میں واقع انڈیا گیٹ۔ تصویر: آئی این این، ۔

دہلی بیہودہ الفاظ کے استعمال میں ملک بھر میں سرفہرست قرار پایا ہے۔ یہ انکشاف ایک ۱۱؍ سالہ جامع مطالعے میں سامنے آیا ہے جو سیلفی ود ڈاٹر فاؤنڈیشن اور مہارشی دیانند یونیورسٹی کے اشتراک سے کیا گیا۔ سروے میں ملک بھر سے مختلف پیشوں اور طبقات سے تعلق رکھنے والے تقریباً۷۰؍ ہزار افراد سے معلومات جمع کی گئیں۔ رپورٹ کے مطابق، دہلی کے۸۰؍ فیصد شرکاء نے اعتراف کیا کہ وہ روزمرہ گفتگو میں گالیوں کا استعمال کرتے ہیں، جن میں خواتین کو ہدف بنانے والی زبان خاص طور پر شامل ہے۔ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ۳۰؍ فیصد خواتین نے بھی گالی دینے کا اعتراف کیا ہے۔ سروے کی قیادت ڈاکٹر سنیل جاگلن نے کی جو مہارشی دیانند یونیورسٹی کے پروفیسر اور سیلفی ود ڈاٹر فاؤنڈیشن کے بانی ہیں۔ یہ مطالعہ’’گالی بند گھر ابھیان‘‘ (No-Abuse Home Campaign) کے تحت کیا گیا جس کا مقصد معاشرے میں زبانی بدتمیزی کے خلاف شعور اجاگر کرنا اور گھروں میں شائستہ گفتگو کو فروغ دینا تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے: ایس بی آئی نے ریلائنس کمیونیکیشنز، انیل امبانی کو”فراڈ“کےطورپردرجہ بند کیا:مرکز نے پارلیمنٹ کوبتایا

سروے میں شامل دیگر ریاستوں کی تفصیلات کچھ یوں ہیں :
(۱) پنجاب دوسرے نمبر پر رہا جہاں ۷۸؍ فیصد لوگوں نے گالیوں کے استعمال کا اعتراف کیا۔ 
(۲) اتر پردیش اور بہار میں یہ شرح۷۴؍ فیصد رہی۔ 
(۳) راجستھان ۶۸؍فیصد، ہریانہ۶۲؍ فیصد، مہاراشٹر ۵۸؍ فیصد اور گجرات۵۵؍ فیصد پر رہے۔ 
(۴) مدھیہ پردیش میں ۴۸؍فیصد اور اتراکھنڈ میں ۴۵؍ فیصد افراد نے گالی گلوچ کو معمول کا حصہ بتایا۔ 
دوسری جانب، شمال مشرقی ریاستوں میں گالیوں کے استعمال کی شرح نسبتاً کم رہی، جو۲۰؍ سے۳۰؍ فیصد کے درمیان تھی جبکہ جموں کشمیر میں صرف ۱۵؍فیصد افراد نے گالی دینے کا اعتراف کیا جو ملک میں سب سے کم ہے۔ سروے میں شامل شرکاء میں نوجوان، اساتذہ، ڈاکٹر، آٹو رکشا ڈرائیور، طلبہ، پولیس اہلکار، وکیل، تاجر، صفائی کارکن، پروفیسرز، اور پنچایت ارکان شامل تھے۔ ماہرین کے مطابق، یہ اعداد و شمار معاشرتی رویوں میں فوری تبدیلی کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK