Inquilab Logo

سویڈن کی ایک تنظیم نے ہندوستان کو ’آمریت پسند‘ ممالک کی فہرست میں شامل کیا

Updated: March 08, 2024, 6:55 PM IST | Stockholm

سویڈن کی تنظیم ورائٹیز آف ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ نے جمہوریت، خود مختاری اور آمریت کی فہرست مرتب کی ہے جس میں نریندر مودی کے زیر قیادت ہندوستان پر جمہوری اقداروں اور عوامی خود مختاری اور آزادئ اظہار رائے کی پامالی کا الزام لگایا ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

سویڈن کی ایک تنظیم ’’و رائٹیز آف ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ‘‘ نے جمعرات کو ایک رپورٹ شائع کی جس میں ہندوستان کو حالیہ برسوں کے دنیا کے ’’بدترین آمریت پسندوں‘‘ کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ 
انسٹی ٹیوٹ نے ’’انتخابات میں جمہوریت کی جیت اور ہار‘‘ کے عنوان والی رپورٹ میں کہا کہ ۲۰۲۳ءکے آخر میں ملک ایک ’’انتخابی خود مختار‘‘ ملک رہا جبکہ ۲۰۱۸ء میں پہلی بار اس عنوان کے تحت ہندوستان کو اس میں شامل کیا گیا تھا۔ 
واضح رہے کہ سویڈن میں قائم انسٹی ٹیوٹ کسی بھی ملک کی جمہوریت اور خود مختاری کے درمیان چار عبوری مراحل میں درجہ بندی کرتا ہے: لبرل جمہوریت، انتخابی جمہوریت، انتخابی خود مختاری اور بند خود مختاری۔ 
یہ انتخابی خود مختاری کی تعریف کرتا ہے جس میں انتظامی اختیارات کیلئے کثیر الجماعتی انتخابات ہوتے ہیں حالانکہ ان میں آزادی اظہار اور انجمن، اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات جیسے بنیادی تقاضوں کی نا کافی تکمیل ہوتی ہے۔ 
و رائٹیز آف ڈیموکریسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان سمیت ۴۲؍ ممالک میں خود مختاری کا عمل جاری ہے جو مجموعی طور پر دنیا کی آبادی کا ۳۵؍ فیصد حصہ ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ نے کہا کہ ’’دنیا کی ۱۸؍ فیصد آبادی والے ہندوستان کے عوام مطلق العنان ممالک میں رہنے والی آبادی کا نصف حصہ ہیں۔ ‘‘ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں نریندر مودی کی زیر قیادت حکومت نے بغاوت، ہتک عزت اور انسداد دہشت گردی جیسے قوانین کا استعمال کرکے ناقدین کو خاموش کیا ہے۔ 
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’بی جے پی حکومت نے ۲۰۱۹ءمیں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ میں ترمیم کرکے آئین میں جمہوریت کے عزم کو کمزور کیا ہے۔ ۲۰۱۹ء کی ترمیم نے مرکزی حکومت کو یہ اختیاردیا کہ وہ کسی بھی فرد کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے سکے۔ اس نے قومی تفتیشی ادارےکے مزید افسران کو مقدمات کی تفتیش کا اختیار دیا۔ 
سویڈن کے ادارے نے کہا کہ جب حکومت کے ذریعے میڈیا کو سینسر کرنے کی بڑھتی ہوئی کوششوں کی بات کی گئی تو ہندوستان، السلواڈور اور ماریشس کے ساتھ بدترین مجرموں میں شامل تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ہندوستانی حکومت مذہبی آزادی کو بھی دباتی رہی ہے۔ سیاسی مخالفین اور حکومتی پالیسیوں پر احتجاج کرنے والے لوگوں کو دھمکانے کے ساتھ تعلیمی اداروں میں اختلاف رائے کو خاموش کرانا اب عام ہے۔ 
انسٹی ٹیوٹ نے کہا کہ بی جے پی آئندہ عام انتخابات میں تیسری بار جیتنے کی امید کر رہی ہے اور اس نے تبصرہ کیا کہ ’’مودی کی قیادت میں پہلے سے جمہوری خود مختاری اور اقلیتوں کے حقوق اور سول سوسائٹی پر کریک ڈاؤن کے پیش نظرمزید زوال پذیر ی کا باعث بن سکتا ہے۔ ‘‘ 
انسٹی ٹیوٹ نے کہا کہ ’’گزشتہ برسوں کے دوران، ہندوستان کےآمریت پسندی کے عمل کو منظم طور پر دستاویزی شکل دی گئی ہے جس میں اظہار آزادی کی بتدریج لیکن کافی حد تک گراوٹ، میڈیا کی آزادی سے سمجھوتہ کرنا، سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن، حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو ہراساں کرنا، اور ساتھ ہی سول سوسائٹی پر حملے اورحزب اختلاف کو دھمکی شامل ہیں۔ ‘‘
انسٹی ٹیوٹ کی لبرل ڈیموکریسی فہرست برائے ۲۰۲۳ء میں سروے کئے گئے ۱۷۹؍ممالک میں سے ہندوستان ۱۰۴؍ ویں نمبر پر ہے۔ یہ فہرست دو ذیلی اشاریوں جمہوریت کے لبرل اور انتخابی دونوں پہلوؤں کے احاطہ کے ساتھ ۷۱؍ معیارکی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ 
الیکٹورل ڈیموکریسی فہرست اور لبرل کمپوننٹ فہرست کے معیار میں حکومت کے جبر اور اکثریت کے ظلم دونوں کے خلاف انفرادی اور اقلیتی حقوق کے تحفظ کی اہمیت، مرد اور خواتین کا حق رائے دہی، حکومتی پالیسی کے تحت منتخب سیاسی عہدیداروں کو حاصل اختیارات شامل ہیں۔ 
جمہوری اصولوں کے دیگر اشاریوں کے علاوہ اقتدار اور اکثریت کے ظلم دونوں کے خلاف انفرادی اور اقلیتی حقوق کے تحفظ کی اہمیت اور اداروں کے درمیان توازن، خاص طور پر انتظامی اختیار کے استعمال کو محدود کرنا بھی شامل ہیں۔ 
تاہم، ہندوستان کی وزارت خارجہ نے اس سال کی رپورٹ پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ یاد رہے کہ مارچ ۲۰۲۱ءمیں وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے و رائٹیز آف ڈیموکریسی اور امریکہ میں قائم غیر سرکاری تنظیم فریڈم ہاؤس کی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ہندوستان میں جمہوریت ختم ہو رہی ہے زور دے کر کہا کہ ہندوستان کو دنیا کے خود ساختہ محافظین کے مجموعےکی سند یا تھکا دینے والے اخلاقی درس کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘جے شنکر نے کہا تھا کہ ’’آپ جمہوریت اور خود مختاری کے دوہرے معیار کا استعمال کرتے ہیں ... اورراست جواب چاہتے ہیں، یہ منافقت ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK