Inquilab Logo

۵۰؍ سال قبل لکھا گیا سویڈش نغمہ’’لیوے پلسطینا‘‘ فلسطین حامی مظاہرین کا ترانہ

Updated: February 22, 2024, 9:28 PM IST | Stockholm

اسرائیل فلسطین تنازع کو ۵؍ ماہ ہوگئے ہیں مگر امریکہ، یورپ اور ایشیاء کی سڑکوں پر فلسطین کی حمایت میں اٹھنے والی کروڑوں آوازوں کو دنیا کے حکمراں دبانے میں ناکام رہے ہیں۔ کم و بیش ۵۰؍ سال پہلے لکھا گیا ایک سویڈش نغمہ ’’لیوے پلسطینا‘‘ مظاہرین کا ترانہ بن گیا ہے۔ مظاہرین جب سڑکوں پر بیک آواز یہ نغمہ گاتے ہیں تو وہاں موجود فوجی اور پولیس بھی گھبرا جاتے ہیں۔ یہ نغمہ عالمی سطح پر ہونے والے کنسرٹ میں بطور خاص گایا جارہا ہے۔

Pro-Palestinian protesters on a street in Dublin. Photo: X
ڈبلن کی ایک سڑک پر فلسطین حامی مظاہرین۔ تصویر: ایکس

مضمون کے مشمولات

’’لیوے پلسطینا‘‘ نغمہ کا ترجمہ
اسرائیلی مظالم
جارج توتاری (George Totari) کون ہیں؟
کوفیا کی شناخت
ویتنام جنگ، جنوبی افریقی نسل پرستی
سوشل میڈیا پر وائرل

۱۹۷۰ء کے عشرے کا ایک سویڈش نغمہ ’’لیوے پلسطینا‘‘ (Leve Palestina) جس کا مفہوم ہے ’’فلسطین زندہ باد‘‘ ، غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ جنگی کارروائی کے خلاف امریکہ، یورپ اور ایشیاء کی سڑکوں پر مظاہرین کیلئے ایک ترانہ بن گیا ہے۔ 
کوفیا نامی بینڈ نے یہ نغمہ سویڈش حکام کے خلاف تیار کیا تھا، جو صیہونیوں کے کافی قریب تھے۔ اس کے ذریعے سویڈش حکومت کی مذمت کی کوشش کی گئی تھی۔ اس نغمہ کے الفاظ آج بھی طاقتور ہیں اور فلسطینیوں اور ان کے اتحادیوں کیلئے اظہارِ مزاحمت کا ذریعہ بن گئے ہیں۔
اس بینڈ کے بانی جارج توتاری (۷۷؍ سالہ) نے ٹی آر ٹی ورلڈ کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ ’’مَیں نے یہ میوزک گروپ ’’کوفیا‘‘ شروع کیا تاکہ موسیقی کے ذریعے لوگوں کو اپنے ملک کی کہانی سنا سکوں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’جب میں ۱۹۶۷ء میں سویڈن آیا تو مجھے احساس ہوا کہ میں اسرائیل پر جتنی کھل کر تنقید فلسطین میں کرسکتا تھا، یہاں نہیں کرسکتا۔ اور یہاں کے عوام فلسطین کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے۔ ‘‘

’’لیوے پلسطینا‘‘ نغمہ کا ترجمہ

فلسطین زندہ باد ، صیہونیت مردہ باد 
فلسطین زندہ باد ، صیہونیت مردہ باد 
فلسطین زندہ باد، 
فلسطین زندہ باد، 
فلسطین زندہ باد ، صیہونیت مردہ باد 
فلسطین زندہ باد ، صیہونیت مردہ باد 
 
اور ہم نے کاشت کی
اور ہم نے گندم کی کٹائی کی
ہم نے لیموں جمائے
اور زیتون اُگائے
اور پوری دنیا ہماری مٹی پہچانتی ہے 
اور پوری دنیا ہماری مٹی پہچانتی ہے 
 
فلسطین زندہ باد، زندہ باد
فلسطین زندہ باد، زندہ باد
فلسطین زندہ باد ، صیہونیت مردہ باد 
فلسطین زندہ باد ، صیہونیت مردہ باد 
 
اور ہم نے پتھر پھینکے، 
سپاہیوں اور پولیس پر
اور ہم نے میزائل داغے، 
ہمارے دشمنوں پر
اور ہماری جدوجہد پوری دنیا جانتی ہے
اور ہماری جدوجہد پوری دنیا جانتی ہے
 
فلسطین زندہ باد، زندہ باد
فلسطین زندہ باد، زندہ باد
فلسطین زندہ باد ، صیہونیت مردہ باد 
فلسطین زندہ باد ، صیہونیت مردہ باد 
 
اور ہم اپنی سرزمین کو آزاد کرائیں گے،
سامراجیت سے
اور ہم اپنی زمین بنائیں گے،
اشتراکیت سے
اور پوری دنیا گواہی دے گی
اور پوری دنیا گواہی دے گی
 
فلسطین زندہ باد، زندہ باد
فلسطین زندہ باد، زندہ باد
فلسطین زندہ باد ، صیہونیت مردہ باد 
فلسطین زندہ باد ، صیہونیت مردہ باد 

اسرائیلی مظالم
اسرائیلی حملوں میں گزشتہ ۵؍ ماہ میں ۳۰؍ ہزار ۸۰۰؍ فلسطینی جاں بحق اور ۷۲؍ ہزار ۲۹۸؍ سے زائد زخمی ہوئے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے زیادہ ہیں۔ ۷؍ ہزار افراد لاپتہ ہیں۔
سوشل میڈیا کے دور میں اسرائیلی حکومت کیلئے محصور فلسطینی انکلیو پر ہونے والے مظالم کو چھپانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔لیکن امریکہ سے لے کر جرمنی تک کی حکومتیں اسرائیل کی غیر متناسب فوجی مہم کی مخالفت کرنے والے لوگوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہیں۔

جارج توتاری (George Totari) کون ہیں؟
جارج توتاری اسرائیل کے فلسطین سے الگ ہونے سے دو سال قبل ۱۹۴۶ء میں ناصرت میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ۱۹۶۷ء کی جنگ کے بعد سویڈن ہجرت کر گئے جس میں اسرائیل نے فلسطینی اراضی کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت سویڈن، اسرائیل سے زیادہ صیہونی تھا۔
فلسطینیوں کی بے دخلی اور ان کی زمینوں پر قبضے نے جارج توتاری کو کوفیا نامی بینڈ بنانے پر مجبور کیا۔ اس بینڈ میں دیگر فلسطینی اور بائیں بازو کے سویڈش موسیقار شامل تھے۔ جارج نے کہا کہ موسیقی کے ذریعے دنیا کے سامنے اپنی بات کہنا زیادہ آسان ہے۔
جس وقت بینڈ نے موسیقی بنانا شروع کی، سویڈن کے ممتاز سیاستدانوں نے فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے پر تنقید کرنے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا اور ۱۹۷۱ء میں ان میں سے کچھ نے اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا میئر کو بھی خوش آمدید کہا، جنہیں فلسطینی فاشسٹ کہتے ہیں۔
توتاری، جو ایک فلسطینی مسیحی ہیں، کہتے ہیں کہ انہیں اپنے آبائی شہر ناصرت کی یادوں میں تحریک ملتی ہے۔ وہ چرچ اور پارٹیوں میں نغمہ گانے کے لمحات کو یاد کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ان یادوں کو اسرائیلی جبر کا مقابلہ کرنے کیلئے استعمال کیا۔

کوفیا بینڈ کے افراد۔ درمیان میں جارج توتاری کو دیکھا جاسکتا ہے۔ تصویر: آئی ایم ڈی بی

کوفیا کی شناخت
کئی دہائیوں کے دوران، فلسطینی تارکین وطن نے کئی موسیقار اور معروف فنکار پیدا کئے ہیں۔ لیکن جو چیز ’’کوفیا‘‘ کو الگ کرتی ہے وہ اس کے پیغام کو پیش کرنے کیلئے مغربی زبان کو اپنانا ہے۔
’’ پلسطائن میوزک ان ایگزیل‘‘ کے مصنف ڈاکٹر لوئس بریہونی کا کہنا ہے کہ ’’اس وقت، دنیا بھر میں بہت سے فلسطینی بینڈ اور موسیقار تھے، اور ان میں سے اکثریت فلسطینی عوام کیلئے براہ راست دھنیں ترتیب دے رہی تھی۔ لیکن کوفیا کے سویڈش لوگوں کو تعلیم دینے اور فلسطینیوں کی مزاحمت کا پیغام یورپیوں کو ان کی اپنی زبان میں پہنچانے کیلئے موسیقی کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرنے کے انوکھے انداز نے انہیں نمایاں کر دیا۔بینڈ نے محسوس کیا کہ اس پیغام کو ایسی زبان میں پہنچانا ان کا فرض ہے جسے سویڈش لوگ بھی سمجھ سکیں۔ انہوں نے سویڈش اور عربی، دونوں زبانوں میں گایا، یہاں تک کہ سویڈش گلوکاروں کو عربی میں گانا سکھایا۔‘‘
اپنے سویڈش گانوں کے ساتھ دنیا کو فلسطینیوں کی جدوجہد کے بارے میں بتانے کے علاوہ، کوفیا دوسری مظلوم قوموں تک بھی پہنچا اور ان کی آواز بنا۔

ویتنام جنگ، جنوبی افریقی نسل پرستی
۱۹۷۰ء کی دہائی میں جب ویتنام کی جنگ اور جنوبی افریقی نسل پرستی کی مخالفت عروج پر تھی، گوتھنبرگ محنت کش طبقے کے کارکنوں کیلئے ایک مرکزی نقطہ تھا جو سویڈش۔فلسطینی بینڈ کو جلدی قبول کرلیتے تھے۔ بریہونی کہتے ہیں ، ’’جب بھی گوتھنبرگ میں کسی بھی مسئلے پر احتجاج ہوتا، کوفیا وہاں پہنچ جاتا۔بینڈ کی وابستگی انفرادی وجوہات سے آگے بڑھی ہے۔ پھر چاہے اس کا تعلق جنوبی افریقہ کے ساتھ ہو، چاہے وہ مزدوروں کی جدوجہد ہو یا سوشلسٹ مظاہرہ، وہ وہاں فلسطین کا پیغام گاتے رہے۔ ان کوششوں کے ذریعے، انہوں نے نہ صرف سویڈن میں فلسطینی کاز بلکہ دیگر تحریکوں کی وکالت کرنے والی ایک ممتاز اور بنیاد پرست آواز کے طور پر خود کو قائم کیا۔ اور بینڈ نے سویڈن میں مین اسٹریم انڈسٹری کی مدد کے بغیر شناخت حاصل کی۔‘‘

سوشل میڈیا پر وائرل
ٹک ٹاک اور انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارمز پر وائرل ہونے والے تقریباً ۵۰؍ سال قبل لکھے گئے نغمے کے متعلق توتاری کہتے ہیں، ’’مجھے اس نغمہ پر فخر ہے کیونکہ یہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ نغمہ جبر کے خلاف مزاحمت کا پائیدار پیغام دیتا ہے۔ ‘‘ آج یہ نغمہ فلسطینی مزاحمت کی شناخت بن چکا ہے۔ سڑکوں پر جب لوگ ایک آواز میں ’’لیوے پلسطینا‘‘ گاتے ہوئے احتجاج کرتے ہیں تو وہاں موجود فوجی اور پولیس بھی گھبرا جاتے ہیں۔ 

توتاری کہتے ہیں کہ ’’میرے نزدیک یہ نغمہ اُن قوتوں پر فتح کی نمائندگی کرتا ہے جو صیہونیت مخالف پیغام کو خاموش کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔‘‘

ڈبلن کی ایک سڑک پر فلسطین حامی مظاہرین۔ تصویر: ایکس

(ترجمہ: شہباز خان)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK