امریکہ چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل اس سلسلےمیں خاطر خواہ پیش رفت ہو، تاکہ نیویارک میں دنیا کے لیڈر اس پیش رفت کو دیکھ سکیں۔
EPAPER
Updated: September 18, 2025, 1:37 PM IST | Agency | Damascus
امریکہ چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل اس سلسلےمیں خاطر خواہ پیش رفت ہو، تاکہ نیویارک میں دنیا کے لیڈر اس پیش رفت کو دیکھ سکیں۔
دمشق کی جانب سے اس اعلان کے بعد کہ وہ امریکہ کے توسط سے اسرائیل کے ساتھ جنوبی علاقے پر سیکوریٹی مفاہمت کے لئےکام کر رہا ہے باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ شام اسرائیلی فریق کے ساتھ مذاکرات تیز کر رہا ہے تاکہ ایک سیکوریٹی معاہدے تک پہنچ سکے جس سے وہ حالیہ عرصے میں اسرائیل کے قبضے میں جانے والی زمین واپس لینا چاہتا ہے لیکن ذرائع نے واضح کیا کہ یہ معاہدہ کسی جامع امن معاہدے کے درجے کا نہیں ہوگا۔
رائٹرز سے گفتگو کرنے والے۴؍ ذرائع جن میں شامی فوجی اور سیاسی حکام، انٹیلی جنس ذرائع اور ایک اسرائیلی عہدیدار شامل ہیں نے کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل اس سلسلےمیں خاطر خواہ پیش رفت ہو، تاکہ امریکی شہر نیویارک میں دنیا کے لیڈر اس پیش رفت کو دیکھ سکیں۔
ذرائع نے بتایا کہ دمشق کی تجویز کےمطابق اسرائیلی فوج کے ان علاقوں سے انخلاء کی بات شامل ہے جو اس نے حالیہ مہینوں میں قبضے میں لئے ہیں، ساتھ ہی۱۹۷۴ءکے جنگ بندی معاہدے کے تحت بنائی گئی غیر فوجی بفر زون کی بحالی اور اسرائیلی فضائی حملوں اور زمینی کارروائیوں کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق بات چیت میں گولان کی حیثیت شامل نہیں جس پر اسرائیل نے۱۹۶۷ء کی جنگ میں قبضہ کر لیا تھا۔ ایک شامی ذریعے کے مطابق یہ مسئلہ مستقبل پر چھوڑا جائے گا۔
یاد رہے کہ اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ’’دمشق کے ساتھ کسی بھی تعلق کی قیمت گولان پر اسرائیل کے قبضے کو برقرار رکھنی ہوگی۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل مذاکرات میں اپنی حالیہ کامیابیوں سے دستبردار ہونے پر ہچکچا رہا ہے۔ ایک اسرائیلی سیکوریٹی ذریعے نے کہا، ’’امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں بڑی سفارتی کامیابی کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں، مگر اسرائیل زیادہ رعایتیں دینے کو تیار نہیں۔‘‘
امریکی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے تصدیق کی کہ واشنگٹن ہر اس کوشش کی حمایت کرتا ہے جو شام، اسرائیل اور خطے میں پائیدار امن و استحکام لا سکے۔
یاد رہے شام اور اسرائیل۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے قیام ہی سے جنگ کی حالت میں ہیں، اگرچہ وقفے وقفے سے حالات پرسکون بھی رہے۔ اسرائیل نے گزشتہ برس۸؍ دسمبر کے بعد سے کئی ماہ تک غیر فوجی علاقے میں توسیع کرتے ہوئے۱۹۷۴ ءکے جنگ بندی معاہدے کو توڑ دیا۔ اس عرصے میں شامی حکومت کو گرانے والی اپوزیشن کی پیش قدمی کے بعد اسرائیلی افواج دمشق سے صرف۲۰؍ کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچ گئیں اور شامی فوجی اثاثوں کو بھی نشانہ بنایا۔